خود کو ناقابلِ تسخیر سپر پاور سمجھنے والا ملک — امریکہ — اس وقت معاشی طور پر بدترین حالت سے گزر رہا ہے۔
داخلی صورت حال سے قطع نظر، آج ہم امریکہ کی تباہ حال معیشت کا سرسری جائزہ لیں گے، اور وہ جواز ڈھونڈنے کی کوشش کریں گے جن کی وجہ سے آج امریکہ براہ راست یا بالواسطہ جنگوں میں ملوث ہے۔
قارئینِ محترم!
جو لوگ سمجھ نہیں پا رہے کہ امریکہ اور یورپ آخر چین سے جنگ کیوں چاہتے ہیں، انہیں ان کی اقتصادی حقیقت کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔
یہ کوئی سیاسی کھیل نہیں… یہ امریکہ کے لیے معاشی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔
- سال 2000 میں امریکہ میں تقریباً 6 ہزار ارب ڈالر گردش میں تھے۔
- آج یہ تعداد 24 ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکی ہے۔
یعنی صرف 24 سالوں میں ڈالر کی مقدار چار گنا بڑھ گئی ہے۔ یہ کرنسی کی تباہی کی علامت ہے۔ - سال 2000 میں امریکہ کا قومی قرضہ 5 ہزار ارب ڈالر تھا۔
- آج یہ 36 ہزار ارب ڈالر سے زیادہ ہو چکا ہے۔
یعنی صرف 24 سالوں میں قرضہ سات گنا بڑھ گیا ہے — اور یہ قرضہ ہر سال بڑھتا جا رہا ہے۔
امریکہ جو ڈالر چھاپتا ہے (منی سپلائی بڑھاتا ہے)، ان کا 70 فیصد امریکہ سے باہر استعمال ہوتا ہے۔
یہ دنیا کے باقی ممالک کے لیے ایک ان ڈائریکٹ ٹیکس ہے۔
جب امریکہ ڈالر چھاپتا ہے تو اس کی قیمت کم ہو جاتی ہے، لیکن چونکہ یہ ڈالر دنیا بھر میں استعمال ہوتے ہیں، اس لیے نقصان دوسرے ممالک کو ہوتا ہے اور فائدہ امریکہ کو۔
یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا فراڈ ہے، جو پچھلے پچاس سال سے چل رہا ہے — لیکن اب یہ کھیل ختم ہونے والا ہے۔
BRICS نے متبادل مالی نظام بنانا شروع کر دیا ہے —
چین، روس، ایران، سعودی عرب، اور دیگر ممالک اپنی کرنسیوں میں تجارت کر رہے ہیں۔
اگر یہ سلسلہ جاری رہا، تو امریکہ کی ساری طاقت ختم ہو جائے گی۔
امریکہ میں کوئی بڑی صنعت باقی نہیں رہی۔
سب کچھ چین منتقل ہو چکا ہے۔
اگر امریکہ کوئی نئی ٹیکنالوجی ایجاد کرتا ہے تو اس کی تیاری کا خرچہ بہت زیادہ ہوتا ہے،
جبکہ چین اسی ٹیکنالوجی کو ریورس انجینئرنگ کے ذریعے چند مہینوں میں سستے داموں تیار کر لیتا ہے۔
چین کو تحقیق و ترقی (R&D) کا خرچہ نہیں اٹھانا پڑتا — صرف پیداوار کا۔
اور اب تو چین اپنی ایجادات بھی خود کرنے لگا ہے۔
مصنوعی ذہانت (AI)، الیکٹرک گاڑیاں، سولر انرجی، اور کوانٹم کمپیوٹنگ میں چین آگے نکل چکا ہے
اور چین کے پاس پیداوار کی سہولتیں موجود ہیں، جو امریکہ کے پاس نہیں ہیں۔
لیکن امریکہ چین کی ایجادات کو کاپی نہیں کر سکتا کیونکہ اس کے پاس صنعتی صلاحیت ہی نہیں۔
یورپ کا حال اور بھی برا ہے۔
یوکرین کی جنگ کی وجہ سے یورپ کو روسی گیس اور تیل چھوڑنا پڑا۔
اب وہ امریکہ سے مہنگا ایندھن خرید رہا ہے۔
جرمنی کی صنعتیں بند ہو رہی ہیں کیونکہ انہیں سستی انرجی نہیں مل رہی۔
فرانس میں بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔
برطانیہ کی معیشت مسلسل کمزور ہو رہی ہے۔
- امریکہ کا جو 36 ہزار ارب ڈالر کا قرضہ ہے،
اس کا ایک بڑا حصہ اس سال میچور ہو رہا ہے۔ - لیکن امریکہ کے پاس اتنا پیسہ کہاں سے آئے گا؟
وہ صرف مزید ڈالر چھاپ سکتا ہے — لیکن اس سے مہنگائی اور بھی بڑھے گی۔
یہی وجہ ہے کہ امریکہ کے پاس صرف ایک راستہ بچا ہے: جنگ۔ جنگ۔ جنگ۔
جنگ کے ذریعے وہ اپنے مخالفین کو کمزور کر سکتا ہے، ان کے وسائل پر قبضہ کر سکتا ہے،
اور اپنے قرضوں کو معاف کروا سکتا ہے۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد بھی یہی ہوا تھا —
امریکہ نے اپنی تمام مشکلات جنگ کے ذریعے حل کی تھیں۔
لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ امریکہ اتنا کمزور ہو چکا ہے کہ کسی بڑی طاقت کے ساتھ براہِ راست جنگ بہت بڑا چیلنج ہو گا۔
لیکن بچنے کا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔
پراکسی جنگوں کی کوشش کی گئی تھی:
- یوکرین میں روس کے خلاف
- مشرقِ وسطیٰ میں ایران کے خلاف
- اب تائیوان کے ذریعے چین کے خلاف
یہ کوششیں ناکام ہو چکی ہیں۔
اب صرف چین کے ساتھ براہِ راست جنگ کی صورت بچی ہے۔
اگر وہ بھی ناکام ہو گئی تو
- امریکی طاقت کا خاتمہ ہو جائے گا
- اسرائیل کا ڈرامہ ختم ہو جائے گا
- انڈیا بھی اپنی اوقات میں آ جائے گا
اور اگر یہ جنگ کامیاب ہو گئی تو دنیا میں تباہی مچ جائے گی۔
لیکن امریکہ کے پاس کوئی اور راستہ نہیں — وہ جانتا ہے کہ
اگر اب نہیں، تو پھر کبھی نہیں۔
یہ ان کی بقاء کا مسئلہ ہے۔
گلوبل ساؤتھ چاہتا ہے کہ یہ جنگ نہ ہو،
کیونکہ اگر براہِ راست جنگ نہ ہوئی تو امریکہ اقتصادی موت مر جائے گا — جیسے سوویت یونین مرا تھا۔
قارئینِ محترم!
دنیا آج اس مقام پر پہنچ چکی ہے، جہاں سائنس نہ صرف دفاعی صلاحیتوں میں اضافہ کر رہی ہے
بلکہ پرانی جنگی حکمت عملیوں کو بھی نئے زاویے دے رہی ہے۔
اب چین کی دفاعی نوعیت کے اقدامات کا جائزہ صرف اس ایک مثال سے دینا کافی ہوگا جو چین کی کامیابی کے لیے کافی ہے:
حالیہ دنوں میں چین کی جانب سے ایک غیر جوہری ہائیڈروجن بم کا کامیاب تجربہ سامنے آیا ہے، جو جدید ترین ٹیکنالوجی کا شاہکار ہے۔
اس بم کی خاص بات یہ ہے کہ:
- یہ روایتی ایٹمی ہتھیاروں کے برعکس تابکار اثرات سے پاک ہے
- مگر اس کی تباہ کن صلاحیت کسی بھی جوہری ہتھیار سے کم نہیں
یہ تھرموبارک ٹیکنالوجی پر مبنی ہے
جس میں ایندھن اور ہوا کے امتزاج سے زبردست دباؤ اور حرارت پیدا کی جاتی ہے۔
بم کے پھٹنے کے بعد جو آگ کا گولہ پیدا ہوتا ہے،
اس کا درجہ حرارت ہزار ڈگری سینٹی گریڈ تک جا پہنچتا ہے۔
یہ صرف ایک تکنیکی کامیابی نہیں بلکہ اس بات کا ثبوت ہے کہ چین نے سائنس، ٹیکنالوجی اور دفاعی تحقیق میں دنیا کو پیچھے چھوڑنے کی ٹھان لی ہے۔
چین گزشتہ دو دہائیوں سے مسلسل دفاعی میدان میں تحقیق و ترقی پر توجہ دے رہا ہے۔
مگر اس بار جس حکمت اور سائنسی بلوغت کے ساتھ چین نے اس ٹیکنالوجی کو اپنایا ہے
وہ عالمی سطح پر اس کی سائنسی قیادت کو مزید مضبوط کرتی ہے۔
ایسا ہتھیار — جو تابکاری اثرات سے پاک ہو
مگر دشمن کی قوتِ مزاحمت کو مکمل مفلوج کر دے —
یہ صرف چین جیسی جدید سائنسی ریاست ہی تیار کر سکتی ہے۔
یہ ترقی یقیناً دنیا کے لیے ایک پیغام ہے کہ
جدید جنگوں کا منظرنامہ بدل چکا ہے۔
اب صرف طاقت نہیں، بلکہ ذہانت، حکمت اور سائنسی مہارت ہی اصل ہتھیار بن چکے ہیں۔
چین کا یہ قدم نہ صرف تکنیکی میدان میں اس کی خودمختاری کی عکاسی کرتا ہے
بلکہ یہ اس کی سائنسی بصیرت اور عالمی طاقت بننے کے عزم کا بھی ثبوت ہے۔
جہاں دنیا کو اس ہتھیار کی تباہ کن صلاحیتوں پر تشویش ہو سکتی ہے
وہیں ہمیں اس بات کو بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ
چین کی یہ پیش رفت
سائنسی تحقیق، نظم و ضبط، اور طویل المدتی وژن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یہ صرف ایک بم نہیں —
بلکہ ایک نئی سائنسی حقیقت ہے۔
اور اس کے پیچھے موجود چینی دماغ واقعی قابلِ داد ہیں۔