Nigah

سوشل میڈیا، آزادی اظہار رائے کا حق یا نفرت کا ہتھیار؟

social media nigah pk

 

دنیا بھر میں ٹیکنالوجی کی ترقی نے انسانی زندگی کے ہر شعبے کو متاثر کیا ہے، مگر اس انقلاب کا سب سے بڑا مظہر سوشل میڈیا کا ابھار ہے۔ فیس بک، ٹوئٹر (ایکس)، یوٹیوب، انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور دیگر پلیٹ فارمز نے عام فرد کو بھی وہ طاقت دی ہے جو کبھی صرف صحافیوں، لکھاریوں یا اشرافیہ کے پاس ہوا کرتی تھی۔۔۔یعنی آزادی اظہار۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا یہ آزادی واقعی صرف اظہارِ رائے کے لیے استعمال ہو رہی ہے؟ یا یہ پلیٹ فارمز نفرت، تعصب، جھوٹ اور انتشار کا ذریعہ بھی بن رہے ہیں؟ اس مضمون میں ہم اسی حساس موضوع کا جائزہ لیتے ہیں ۔
آزادی اظہار رائے انسان کا بنیادی حق ہے، جسے اقوامِ متحدہ نے بھی انسانی حقوق کے عالمی منشور میں تسلیم کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ہر فرد کو اپنی رائے رکھنے، اسے بیان کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کا حق حاصل ہے، بشرطیکہ وہ رائے دوسروں کے بنیادی حقوق یا ساکھ کو مجروح نہ کرے۔
جمہوری معاشروں میں آزادی اظہار وہ ستون ہے جس پر آزاد صحافت، سیاسی تنقید اور سماجی ترقی کی عمارت کھڑی ہے۔ مگر آزادی کا مطلب لا محدود چھوٹ نہیں ہوتا۔ اس کی حدود اخلاق، قانون اور دوسروں کے حقوق کے دائرے میں متعین کی جاتی ہیں۔
سوشل میڈیا نے اظہارِ رائے کو نئی جہت دی ہے۔ اب کوئی بھی فرد، کسی بھی وقت، کسی بھی موضوع پر اپنی رائے دنیا بھر میں چند لمحوں میں پھیلا سکتا ہے۔ یہ آزادی صحافت اور جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے بے حد سودمند ثابت ہوئی ہے۔ خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں، جہاں روایتی میڈیا پر سنسر شپ یا دباؤ ہوتا ہے، وہاں سوشل میڈیا نے متبادل آواز بننے کا کردار ادا کیا ہے۔
مگر دوسری طرف یہی پلیٹ فارمز بعض اوقات غیر ذمہ دارانہ اور منفی مقاصد کے لیے بھی استعمال ہو رہے ہیں۔
سوشل میڈیا پر آزادی اظہار کی آڑ میں نفرت پھیلانا،جھوٹے پراپیگنڈے،مذہبی یا لسانی منافرت اور شخصی کردار کشی اب معمول بنتا جا رہا ہے۔ کچھ صارفین دانستہ طور پر ایسے مواد پھیلاتے ہیں جو کسی مخصوص قوم، فرقے، جنس یا شخصیت کو نشانہ بناتے ہیں۔
سیاسی مخالفین کے خلاف کردار کشی یا جھوٹے الزامات،عورتوں کے خلاف گالم گلوچ یا ہراسانی، نوجوانوں کے خلاف بلیک میلنگ۔
یہ سب افعال آزادی اظہار کے دائرے میں نہیں آتے بلکہ یہ قانونی اور اخلاقی جرم کے زمرے میں آتے ہیں۔
سوشل میڈیا پر کئی بار ایسا دیکھنے کو ملتا ہے کہ کوئی سنجیدہ مسئلہ زیرِ بحث ہوتا ہے، مگر چند لوگ اسے جذباتی اور ذاتی حملوں میں بدل دیتے ہیں۔ مخالف رائے کو برداشت نہ کرنا یا اختلاف کو دشمنی سمجھ لینا، سوشل میڈیا پر عمومی رویہ بنتا جا رہا ہے۔
اس رویے سے معاشرے میں مکالمے کی گنجائش کم ہو رہی ہے اور شدت پسندی کو فروغ مل رہا ہے۔ اختلافِ رائے جمہوریت کا حسن ہے، لیکن جب رائے کا اظہار گالی، دھمکی یا جھوٹ پر مبنی ہو تو یہ سوسائٹی کو تقسیم کرنے کا سبب بنتا ہے۔
پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں سائبر کرائم قوانین موجود ہیں جن کے تحت نفرت انگیز تقریر،مذہبی منافرت پھیلانا،کسی کی نجی زندگی میں دخل دینا، فحش یا غیر اخلاقی مواد پھیلانا اور بلیک میلنگ یا ہراسانی قابلِ سزا جرائم تصور کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں "پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) 2016 اس حوالے سے اہم قانونی فریم ورک ہے۔ مگر بدقسمتی سے ان قوانین کا استعمال بعض اوقات صرف حکومت پر تنقید کرنے والوں کے خلاف کیا جاتا ہے، جبکہ حقیقی مجرم کئی بار بچ نکلتے ہیں۔
سوشل میڈیا کو ایک مہذب، مثبت اور تعمیری پلیٹ فارم بنانے کے لیے ہر صارف پر ذاتی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ صارفین کو چاہئے کہ کوئی خبر یا معلومات شیئر کرنے سے پہلے اس کی سچائی جانچیں۔ تنقید کریں۔ مگر گالی، تضحیک یا نفرت سے گریز کریں۔ہر کوئی آپ سے متفق نہیں ہوگا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ دشمن ہے۔ بحث کو نظریاتی سطح پر رکھیں، کسی کی ذاتی زندگی کو ہدف نہ بنائیں۔ اگر کوئی فرد مسلسل نفرت انگیزی یا جھوٹ پھیلا رہا ہو تو متعلقہ پلیٹ فارمز کو رپورٹ کریں۔
ٹیک کمپنیز جیسے میٹا (فیس بک/انسٹاگرام)، ایکس (ٹوئٹر)، یوٹیوب وغیرہ پر بھی بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ نفرت انگیز مواد کے خلاف سخت کارروائی کریں،فیک نیوز کے خلاف خودکار سسٹمز نافذ کریں،صارفین کی رازداری یقینی بنائیں اور ایسے الگورتھمز نہ بنائیں جو صرف اشتعال انگیزی کو وائرل کرتے ہیں۔ یہ سوشل میڈیا کمپنیاں اربوں روپے کماتی ہیں، لہٰذا ان پر اخلاقی اور سماجی طور پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔
اگر آزادی اظہار کا مطلب صرف یہ رہ جائے کہ جو دل چاہے، جب چاہے، جیسے چاہے کہہ دیا جائے تو یہ آزادی نہیں، بلکہ انارکی ہے۔ ایک مہذب معاشرہ وہی ہوتا ہے جہاں ہر فرد کو بولنے کا حق حاصل ہو، مگر اس کا بولنا دوسروں کے حقوق، جذبات اور ساکھ کا قتل نہ کرے۔
سوشل میڈیا ایک طاقتور ہتھیار ہے۔ یہ ہتھیار قلم بھی بن سکتا ہے اور خنجر بھی۔ یہ ہمیں شعور دے سکتا ہے یا اندھی تقلید میں دھکیل سکتا ہے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ ہم اسے کیسے استعمال کرتے ہیں۔
آزادی اظہار بلاشبہ ایک بنیادی انسانی حق ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ذمہ داری، اخلاق اور قانون کی حدود کو بھی ملحوظِ خاطر رکھنا ناگزیر ہے۔ اگر ہم سوشل میڈیا کو نفرت کے بجائے علم، مکالمے، اصلاح اور بھائی چارے کا ذریعہ بنا سکیں تو یہی اصل کامیابی ہے۔
اسلام ایک ایسا دین ہے جو انصاف، علم، اور عدل پر زور دیتا ہے۔ قرآن مجید میں بھی کہا گیا:
"وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا” (البقرہ: 83)
یعنی "لوگوں سے بھلی بات کہو”۔ اسلام اظہارِ رائے کی اجازت دیتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اخلاق، سچائی اور نرمی کی تاکید کرتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
"جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو، وہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے” (بخاری)
اس سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی معاشرے میں آزادی اظہار اخلاقی ذمے داری کے ساتھ مشروط ہےنہ کہ بے لگام بولنے کی آزادی۔
دنیا کے مختلف ممالک میں سوشل میڈیا کے حوالے سے مختلف قوانین موجود ہیں۔
جرمنی میں اگر کوئی نفرت انگیز مواد پوسٹ کرے تو اسے بھاری جرمانے اور قید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔فرانس میں فیک نیوز پھیلانے والے افراد کے خلاف سخت کارروائی ہوتی ہے، خاص طور پر انتخابات کے دوران۔
امریکہ میں اگرچہ اظہارِ رائے کی آزادی آئینی حق ہے، مگر یہاں بھی نفرت انگیز تقاریر، پرائیویسی کی خلاف ورزی، یا تشدد کی ترغیب دینا قابلِ گرفت ہے۔
یہ ممالک آزادی اظہار کو سراہتے ہیں، مگر ساتھ ہی سوشل میڈیا پر قوانین اور اصول بھی سختی سے نافذ کرتے ہیں۔
آج کا نوجوان سوشل میڈیا کا سب سے بڑا صارف ہے۔ یہی نوجوان اگر شعور، تحقیق اور علم سے لیس ہو تو وہ معاشرے میں مثبت انقلاب لا سکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ نوجوان نسل کو رہنمائی دی جائے، تاکہ وہ نفرت اور جھوٹ کے بجائے علم، امن اور تحقیق کو پھیلائیں۔

Author

  • ڈاکٹر محمد سلیم

    محمد سلیم برطانیہ میں مقیم مصنف اور محقق ہیں جن کی اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ایک مضبوط علمی بنیاد ہے۔ اس کا کام طاقت اور حکمت عملی کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتا ہے۔ وہ جغرافیائی سیاست، علاقائی معاملات، اور آج کی دنیا کو تشکیل دینے والے نظریات کے لیے ایک باریک عینک لاتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔