Nigah

موسمیاتی تبدیلیوں کی انسانی زندگی،معیشت اور ماحول پر تباہ کن اثرات

weather nigah pk

گزشتہ چند سالوں سے دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات نہ صرف ظاہر ہو رہے ہیں بلکہ ان کی شدت میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔
یورپ جو عموماً معتدل موسم اور سبزہ زاروں کے لیے مشہور تھا اب شدید گرمی کی لپیٹ میں ہے۔ گرمی کی یہ لہریں انسانی زندگی، معیشت اور قدرتی ماحول پر مہلک اثرات مرتب کر رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگلات کی تباہی، پانی کی قلت، زراعت میں بحران اور جنگلاتی آگ کا پھیلاؤ ایک نئے ماحولیاتی بحران کی گھنٹی بجا رہا ہے۔

سال 2024 اور 2025 کے دوران یورپ نے وہ درجہ حرارت دیکھے جو ماضی میں غیر متوقع سمجھے جاتے تھے۔ فرانس، اسپین، اٹلی، جرمنی اور یونان میں درجہ حرارت 45 °C سے تجاوز کر گیا، جبکہ برطانیہ میں بھی تقریباً 40 °C درجہ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔
عالمی ادارہ برائے موسمیات (WMO) کے مطابق یورپ دنیا کا سب سے تیزی سے گرم ہوتا ہوا خطہ ہے جہاں درجہ حرارت عالمی اوسط سے تقریباً دو گنا زیادہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔

یہ ایک سنگین اشارہ ہے کہ ماحولیاتی نظام اپنی حدود پار کر چکا ہے اور اب ہم موسمیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کا براہِ راست سامنا کر رہے ہیں۔
یورپ میں گرمی کی شدت کے ساتھ جنگلاتی آگ کی شدت اور تعداد بھی بڑھ گئی ہے۔ پرتگال، اسپین، یونان اور اٹلی میں ہزاروں ایکڑ جنگلات جل کر راکھ ہو چکے ہیں۔ جس کے نتیجے میں لاکھوں افراد نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوئے، درجنوں اموات ہوئیں اور اربوں یورو کی مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔

یونان کے جزیرے "روڈس” میں 2023 اور 2024 کے دوران لگنے والی آگ نے مقامی سیاحت کو شدید متاثر کیا۔ سیاحتی مقامات خالی کرا لیے گئے اور ایمرجنسی نافذ کر دی گئی۔ یہ صرف ایک ملک کی نہیں بلکہ پورے براعظم کی ماحولیاتی بے بسی کا اعلان تھا۔
یورپ میں بڑھتی گرمی اور جنگلات کی آگ کے پیچھے صرف قدرتی عوامل نہیں بلکہ انسانی غفلت اور صنعتی ترقی کے منفی اثرات بھی کارفرما ہیں۔

اگر ہم ماحولیاتی بحران کے اسباب کا جائزہ لیں تو درج ذیل عوامل سامنے آتے ہیں:

  1. گرین ہاؤس گیسز کا بڑھتا اخراج
    فیکٹریوں، گاڑیوں اور بجلی گھروں سے خارج ہونے والی گیسیں فضا کو گرم کر رہی ہیں۔
  2. جنگلات کی کٹائی
    درخت کاربن ڈائی آکسائیڈ جذب کر کے ماحول کو متوازن رکھتے ہیں۔ ان کی بے دریغ کٹائی ماحولیاتی توازن بگاڑ رہی ہے۔
  3. شہری آبادی کا پھیلاؤ
    شہروں کی بے ہنگم توسیع، غیر ذمہ دار تعمیرات اور قدرتی وسائل کا حد سے زیادہ استعمال ماحول کے لیے خطرناک ہو رہا ہے۔
  4. عالمی پالیسیوں کی ناکامی
    دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک ماحولیاتی وعدے تو کرتے ہیں، مگر ان پر عملی عملدرآمد میں ناکام رہتے ہیں۔

ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات صرف قدرتی ماحول تک محدود نہیں رہے۔ یورپ میں گرمی کی لہر کے دوران ہزاروں افراد ہیٹ اسٹروک، ڈی ہائیڈریشن اور تنفسی امراض کے شکار ہوئے۔ یورپی ہیلتھ ایجنسی کے مطابق، 2022 میں گرمی کی شدت کے بعد 61 ہزار افراد جان کی بازی ہار گئے۔

اس کے ساتھ ساتھ جنگلات کی آگ نے لاکھوں یورو کی لکڑی، زراعت، سیاحت اور بنیادی ڈھانچے کو نقصان پہنچایا۔ کئی علاقے مہینوں تک دھوئیں میں لپٹے رہے، جس سے عوامی صحت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔
اگرچہ یورپ ماحولیاتی تحفظ کی پالیسیاں بنانے میں دنیا کے سامنے پیش پیش ہے، مگر زمینی حقیقت یہ ہے کہ جب معیشت اور ماحول کے تحفظ کے درمیان انتخاب آتا ہے تو اکثر حکومتیں ماحول کو قربان کر دیتی ہیں۔

مثلاً جرمنی نے حالیہ برسوں میں نیوکلیئر انرجی سے ہٹ کر کوئلے پر دوبارہ انحصار شروع کیا ہے جو ماحولیاتی لحاظ سے ایک منفی پیش رفت ہے۔
اسی طرح فرانس اور دیگر ممالک وقتی طور پر اقدامات کر رہے ہیں جو کاربن اخراج میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ پالیسی ناکامیاں ماحولیاتی بحران کو مزید شدید بنا رہی ہیں۔

ماحولیاتی بحران کو سنجیدگی سے لینے میں میڈیا اور عوامی شعور کا کردار نہایت اہم ہے۔ بدقسمتی سے مین اسٹریم میڈیا اکثر جنگلات کی آگ یا گرمی کی لہر کو صرف ایک وقتی خبر کے طور پر دکھاتا ہے، اس کے اسباب اور طویل المدتی اثرات پر روشنی نہیں ڈالتا۔
سوشل میڈیا پر اگرچہ کچھ ماحول دوست مہمات کامیاب ہو رہی ہیں، مگر ایک بڑی اکثریت ابھی بھی ماحولیاتی مسائل کو نظر انداز کرتی ہے۔ یورپ کے شہریوں میں بڑھتی ہوئی آگاہی امید کی کرن ہے جہاں کئی تنظیمیں، اسکول اور ماحولیاتی کارکنان زمین کے تحفظ کے لیے مؤثر آواز اٹھا رہے ہیں تاہم ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔

اقوام متحدہ اور ماحولیاتی ادارے جیسے UNEP اور IPCC عرصہ دراز سے ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات سے آگاہ کرتے آ رہے ہیں۔ IPCC کی رپورٹس واضح کرتی ہیں کہ اگر عالمی درجہ حرارت کو 1.5 °C تک محدود نہ کیا گیا تو دنیا ناقابلِ تلافی تباہی کی طرف جائے گی۔

اگرچہ ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق کانفرنسز میں عالمی رہنما ماحولیاتی اہداف پر اتفاق کرتے نظر آئے، مگر ترقی پذیر ممالک کو درکار مالی امداد اب بھی سست روی اور سیاسی مصلحتوں کا شکار ہے۔
یہ رویہ ایک عالمی خطرے کو مقامی مسئلہ بنا دیتا ہے جو سنگین غلطی ہے۔

پاکستان جیسے ممالک جو پہلے ہی سیلاب، خشک سالی اور گرمی کی لہروں سے متاثر ہو چکے ہیں، ان کے لیے یورپ کی موجودہ صورتحال ایک وارننگ ہے۔
اس سلسلے میں ہمیں درج ذیل اقدامات کی فوری ضرورت ہے:

  1. ماحولیاتی تعلیم کا فروغ: اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں ماحولیاتی تعلیم کو لازمی قرار دیا جائے۔
  2. شجر کاری اور جنگلات کا تحفظ: "بلین ٹری سونامی” جیسے منصوبوں کو مستقل بنیادوں پر جاری رکھا جائے۔
  3. قانون سازی: ماحولیاتی جرائم کے خلاف سخت قوانین بنائے جائیں اور ان پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے۔
  4. قابلِ تجدید توانائی: سولر، ہوا، اور پن بجلی جیسے ذرائع کو فروغ دیا جائے تاکہ ایندھن پر انحصار کم ہو۔
  5. ریجنل تعاون: پاکستان، بھارت، نیپال، بنگلہ دیش کو مشترکہ ماحولیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے علاقائی فورمز قائم کرنے کی ضرورت ہے۔

یورپ میں گرمی کی لہر اور جنگلات کی آگ ماحولیاتی تبدیلی کی ایک خوفناک تصویر ہے جو یہ ثابت کرتی ہے کہ خطرہ ہمارے دروازے پر نہیں بلکہ گھر کے اندر داخل ہو چکا ہے۔ یہ بحران کسی ایک ملک، خطے یا قوم کا نہیں بلکہ پوری دنیا کا مشترکہ مسئلہ ہے۔
اب وقت ہے کہ ہم صرف زبانی دعووں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کریں، بصورتِ دیگر آنے والی نسلیں ہمیں اس زمین کی بربادی کا ذمہ دار ٹھہرائیں گی۔
ہمیں قدرت کے ساتھ ہم آہنگی سے جینا سیکھنا ہوگا کیونکہ قدرت سے جنگ کا انجام صرف تباہی ہے اور یہ جنگ ہم جیت نہیں سکتے۔

 

Author

  • ڈاکٹر اکرام احمد

    اکرام احمد یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز سے بین الاقوامی تعلقات میں گریجویٹ ہیں۔ باتھ یونیورسٹی میں، جہاں ان کی تحقیق تنازعات کے حل، عالمی حکمرانی، بین الاقوامی سلامتی پر مرکوز ہے۔ ایک مضبوط تعلیمی پس منظر اور عالمی امور میں گہری دلچسپی کے ساتھ، اکرام نے مختلف تعلیمی فورمز اور پالیسی مباحثوں میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ان کا کام بین الاقوامی تعلقات کی حرکیات اور عصری جغرافیائی سیاسی مسائل پر ان کے اثرات کو سمجھنے کے لیے گہری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔