عالمی سیاست میں پاکستان کا کردار ہمیشہ پیچیدہ اور کثیر الجہتی رہا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بطور اتحادی شامل ہونے کے باوجود پاکستان کو اکثر الزام کا مرکز بنا کر پیش کیا گیا۔ تاہم وقت اور حالات نے پاکستان کی قربانیوں اور کارکردگی کو جھٹلانے والوں کو لاجواب کر دیا ہے۔ حالیہ دنوں میں انٹرنیشنل کرائسز گروپ (ICG) کی ایک غیر جانب دار اور معتبر رپورٹ نے پاکستان کو دہشت گردی کا سہولت کار نہیں بلکہ "علاقائی سلامتی کا معمار” قرار دے کر نئی تاریخ رقم کی ہے۔ اس رپورٹ نے نہ صرف پاکستان کے کردار کو تسلیم کیا بلکہ دنیا کو یہ پیغام دیا کہ علاقائی استحکام اور عالمی امن میں پاکستان کی خدمات قابلِ قدر ہیں۔
دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے آغاز سے لے کر گذشتہ دہائی تک پاکستان پر مختلف عالمی و علاقائی حلقوں کی جانب سے الزام تراشی کا سلسلہ جاری رہا۔ بھارت و افغانستان کے سابق حکومتی حلقے اور چند مغربی میڈیا ادارے پاکستان پر دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی کا الزام لگاتے رہے۔ جبکہ حقیقت یہ تھی کہ پاکستان خود دہشت گردی کا سب سے بڑا شکار رہا۔ آرمی پبلک اسکول، مستونگ، صفورا گوٹھ، مہران بیس اور دیگر بے شمار واقعات نے پاکستانی قوم کو گہرے زخم دیے۔ ان زخموں نے پاکستان کو مجبور کیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف سخت ترین اقدامات کرے۔
انٹرنیشنل کرائسز گروپ کی رپورٹ نے پاکستان کے انسداد دہشت گردی کے کردار کو تفصیل سے بیان کیا۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان نے عالمی سطح پر خطرہ بننے والی جہادی تنظیم داعش خراسان (ISKP) کے خلاف سب سے مؤثر اور نتیجہ خیز کارروائیاں کیں۔ آئی سی جی نے پاکستان کو انٹیلیجنس تعاون، دہشت گردوں کی گرفتاری، حوالگی اور دہشت گرد نیٹ ورکس کی بیخ کنی میں کلیدی قوت قرار دیا۔
رپورٹ میں جن شواہد کا حوالہ دیا گیا، ان میں محمدی شریف اللہ کو امریکہ کے حوالے کرنا، ابو مندھر التدجیکی کو روس کے حوالے کرنا اور عادل پنجشری کو ایران کے حوالے کرنا شامل ہیں۔
یہ تمام کارروائیاں اس امر کا ثبوت ہیں کہ پاکستان محض بیانات تک محدود نہیں بلکہ عملی اقدامات کا حامل ملک ہے۔
آئی سی جی کی رپورٹ میں یہ بھی واضح کیا گیا کہ پاکستان نے امریکہ، روس اور ایران جیسے ممالک کے ساتھ انٹیلیجنس اشتراک قائم کیا، جن کے ساتھ اس کے تعلقات ہمیشہ آسان نہیں رہے۔ ان ممالک سے تعاون محض ضرورت کے تحت نہیں تھا بلکہ ایک وسیع تر وژن کا حصہ تھا جس کا مقصد عالمی امن کو یقینی بنانا تھا۔
پاکستان نے نہ صرف داعش خراسان کے مرکزی کمانڈروں کی نقل و حرکت پر نظر رکھی بلکہ ان کی مالی ترسیلات، مواصلاتی نیٹ ورکس اور سماجی رابطوں کو بھی توڑا۔ یہ اقدامات عالمی سطح پر انسداد دہشت گردی کے میکانزم کو مضبوط کرتے ہیں۔
رپورٹ میں اس امر کا بھی اعتراف کیا گیا کہ افغانستان میں دباؤ کے باعث داعش خراسان نے پاکستان کے سرحدی علاقوں خصوصاً خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کی۔ لیکن پاکستانی سیکیورٹی اداروں نے انہیں منظم اور سخت کارروائی کے ذریعے پسپا کر دیا۔
"ردالفساد"، "ضربِ عضب" اور دیگر آپریشنز نے داعش خراسان اور اس جیسے دیگر دہشت گرد گروہوں کی جڑیں کاٹ دیں۔ عوامی حمایت، جدید ٹیکنالوجی اور علاقائی معلومات کی مدد سے انٹیلیجنس اداروں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو نئے خطوط پر استوار کیا۔
ایک اور اہم نکتہ یہ سامنے آیا کہ پاکستان نے قطر میں 2022 کے فیفا ورلڈ کپ پر متوقع دہشت گرد حملے کی منصوبہ بندی کو قبل از وقت ناکام بنا دیا۔ یہ کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کا انٹیلیجنس نیٹ ورک نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی سطح پر بھی متحرک، قابلِ اعتبار اور مؤثر ہے۔
پاکستان کو برسوں تک مشروط اتحادی کے طور پر دیکھا گیا۔ عالمی بیانیہ اسے ایک ایسا ملک قرار دیتا رہا جو انسداد دہشت گردی میں صرف تعاون کر سکتا ہے، قیادت نہیں۔ تاہم آئی سی جی کی رپورٹ نے اس تصور کو بدل دیا ہے۔ اب پاکستان صرف مددگار نہیں بلکہ رہنمائی کرنے والا ملک بن چکا ہے۔
اسلام آباد اب دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم میں نہ صرف شامل ہے بلکہ اس کی قیادت کر رہا ہے، خاص طور پر داعش خراسان جیسے نیٹ ورکس کے خلاف
ایسے وقت میں جب بھارت پاکستان کو عالمی سطح پر تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے، آئی سی جی کی رپورٹ متوازن اور مدلل جواب فراہم کرتی ہے۔ بھارت کی کوشش رہی ہے کہ پاکستان کو FATF جیسے فورمز پر گرے لسٹ یا بلیک لسٹ میں رکھوایا جائے، لیکن پاکستان کی عملی کارکردگی نے ان الزامات کو غلط ثابت کر دیا۔
آئی سی جی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کارکردگی فیٹف جیسے فورمز پر اس کی پوزیشن کو مستحکم بناتی ہے اور معروضی انداز میں پرکھنے کا مطالبہ کرتی ہے، نہ کہ سیاسی تعصب کے ذریعے۔
آئی سی جی نے عالمی برادری کو پیغام دیا ہے کہ پاکستان کو محض ایک علاقائی طاقت کے طور پر نہیں بلکہ ایک اسٹریٹجک انٹیلیجنس مرکز کے طور پر تسلیم کیا جانا چاہیے۔ اس کا انٹیلیجنس انفرا سٹرکچر، جغرافیائی محل وقوع، اور آپریشنل تجربہ دنیا کو دہشت گردی کے خلاف مؤثر اقدامات میں مدد دے سکتا ہے۔
افغانستان میں طالبان کی حکومت کے بعد سکیورٹی خلا پیدا ہو چکا ہے۔ جس سے داعش خراسان کو وسطی ایشیا میں پھیلنے کا موقع ملا۔ ایسے میں پاکستان کی سرحدی موجودگی، علاقائی نیٹ ورکس اور تجربہ عالمی طاقتوں کے لیے ناگزیر بن چکا ہے۔
آئی سی جی کی سفارش ہے کہ پاکستان کے ساتھ تعلقات کو محض محدود تعاون تک نہ رکھا جائے بلکہ انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی میں پاکستان کو مرکزی مقام دیا جائے۔
پاکستان کی انسداد دہشت گردی کے حوالے سے کامیابیاں اب محض دعوے نہیں بلکہ تسلیم شدہ حقائق ہیں۔ حالیہ رپورٹ پاکستان کے عالمی تشخص میں تبدیلی کی ایک اہم بنیاد فراہم کرتی ہے۔
دنیا کو چاہیے کہ وہ پاکستان کو مشتبہ ریاست کے طور پر نہیں بلکہ ایک قابلِ اعتماد، تجربہ کار اور فعال شراکت دار کے طور پر تسلیم کرے۔ پاکستان اب صرف ایک علاقائی کھلاڑی نہیں بلکہ عالمی امن کا معمار بن چکا ہے۔
Author
-
ڈاکٹر محمد منیر ایک معروف اسکالر ہیں جنہیں تحقیق، اکیڈمک مینجمنٹ، اور مختلف معروف تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیوں میں تدریس کا 26 سال کا تجربہ ہے۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز (DSS) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
View all posts