خیبر پختونخوا کے قبائلی ضلع باجوڑ میں 11جولائی کو منعقد ہونے والا "باجوڑ امن پاسون" ابتدائی طور پر ایک مثبت اور بامقصد کوشش کے طور پر سامنے آیا۔ اس کا اعلان ایک ایسے اجتماع کے طور پر کیا گیا تھا جو قبائلی اضلاع میں قیام امن، ترقی اور سماجی انصاف کی حمایت میں اپنی آواز بلند کرے گا۔ لیکن رفتہ رفتہ یہ اجتماع ایک ایسے سیاسی سٹیج میں ڈھلتا چلا گیا جہاں سے ریاستی اداروں پر الزامات، اشتعال انگیزی اور تقسیم کے بیانیے ابھرنے لگے۔
امن کے نام پر منعقد ہونے والا یہ جلسہ درحقیقت امن سے زیادہ انتشاری فضا کو ہوا دینے کا ذریعہ ثابت ہوا۔ جلسہ قبائلی عوام کے اصل مسائل پر توجہ دلانے کا بہترین فورم تھا لیکن بعض مخصوص سیاسی چہروں اور گروہوں نے اسے ایک ایسے موقع میں بدل دیا جو ریاست مخالف بیانیے کی تشہیر کے لیے استعمال کیا گیا۔
جلسے کی ابتدا یقیناً اتحاد، بھائی چارے اور مفاہمت کے جذبے سے ہوئی۔ مختلف قبائلی رہنماؤں، سماجی کارکنوں، اور عوام کی شرکت سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ قبائلی علاقے ایک پائیدار امن کے متلاشی ہیں۔ مگر جلسے کے دوران جب مائیک پر ایسے نعرے گونجنے لگے جو ریاستی اداروں کو مورد الزام ٹھہراتے تھے، تو پورے اجتماع کا رنگ ہی بدل گیا۔ بجائے اس کے کہ یہ پلیٹ فارم تعمیری مکالمے کا ذریعہ بنتا، اسے اختلاف اور نفرت کے بیج بونے کے لیے استعمال کیا گیا۔ جذباتی اور غیرذمہ دارانہ تقریریں، جن میں ‘سول نافرمانی’، ‘کان بندش’ اور ‘مزاحمتی کارروائیوں’ کی اپیلیں شامل تھیں، اس بات کا اشارہ تھیں کہ بعض عناصر اس تحریک کو امن سے کہیں زیادہ کسی سیاسی اور تخریبی ایجنڈے کی تکمیل کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
امن کے نام پر بظاہر کھڑی کی جانے والی یہ تحریک اس وقت مشکوک ہو گئی جب اُس کے اسٹیج سے مسلح مزاحمت جیسے الفاظ استعمال ہونے لگے۔ اگر کسی بھی تحریک کے اندر اصلاح، آئینی حقوق یا مکالمے کی بنیاد موجود نہ ہو، تو وہ اصلاح کی نہیں بلکہ تصادم کی راہ پر گامزن ہو جاتی ہے۔
قبائلی عوام نے دہائیوں تک جنگ، بدامنی، اور معاشی استحصال کا سامنا کیا ہے۔ ان کی مایوسی قابلِ فہم ہے، مگر مایوسی کو غصے اور غصے کو تشدد میں بدلنے کی ترغیب دینا کسی طور پر قابل قبول نہیں ہو سکتا۔ ایسے رویے ان علاقوں کی دیرینہ قربانیوں اور امن کی کوششوں کے منہ پر طمانچہ ہیں۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ سابقہ فاٹا کے علاقے اب بتدریج قومی دھارے میں شامل ہو رہے ہیں۔ سکولوں، سڑکوں، صحت کے مراکز اور کاروباری مراکز کی تعمیر اس بات کی غماز ہے کہ ریاست سنجیدگی سے ان علاقوں کی ترقی کے لیے کوشاں ہے۔ ایسے میں جب امن کی فضا بن رہی ہو، جلسے جلوسوں کے ذریعے ریاستی پالیسیوں کو متنازعہ بنانا اور امن دشمن بیانیہ اپنانا، براہِ راست ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کہیں یہ سب کسی بیرونی ایجنڈے کا حصہ تو نہیں؟
جلسے کے دوران بعض مقررین کی زبان سے ایسے جملے بھی سننے کو ملے جن میں ریاستی اداروں کو دہشت گردی کے فروغ کا ذمہ دار قرار دیا گیا۔ یہ وہی بیانیہ ہے جو ماضی میں پاکستان دشمن قوتیں بین الاقوامی سطح پر پھیلاتی رہی ہیں۔ جمہوریت میں تنقید یقیناً ایک بنیادی حق ہے، مگر دشمن کے بیانیے کو دہرایا جائے تو یہ صرف تنقید نہیں بلکہ غداری کی حد تک پہنچ جاتا ہے۔ پاکستان کی فوج اور سیکورٹی ادارے جنہوں نے ہزاروں جانوں کا نذرانہ دے کر قبائلی علاقوں کو شدت پسندی سے پاک کیا، اُن کے خلاف اس انداز میں بولنا دراصل اُن شہیدوں کی توہین ہے جنہوں نے وطن کی خاطر اپنی جانیں قربان کیں۔
امن پاسون میں بعض سابق پی ٹی آئی رہنماؤں، خصوصاً وہ افراد جو حالیہ سیاسی تبدیلیوں کے بعد اپنی ساکھ کھو بیٹھے تھے، کی موجودگی نے اس تاثر کو مزید مضبوط کیا کہ جلسہ کسی مخصوص سیاسی بیانیے کے فروغ کے لیے منعقد کیا گیا۔ اگر امن کا مقصد خالص ہوتا تو سیاسی طور پر مشکوک چہروں کی موجودگی کم از کم محسوس نہ کی جاتی۔
سیاسی فوائد کے لیے امن کے نام کو استعمال کرنا ایک ایسا عمل ہے جو نہ صرف تحریک کی ساکھ کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ عوامی حمایت کو بھی متزلزل کرتا ہے۔
ریاست پاکستان نے قبائلی تنازعات کے حل کے لیے جرگے، مشاورتی کونسلیں، اور قانونی فورمز جیسے ذرائع مہیا کیے ہیں۔ ایسے فورمز پر اپنے مسائل کا حل تلاش کرنا ایک ذمہ دارانہ رویہ ہوتا ہے، مگر جب کوئی گروہ ان تمام دروازوں کو بند کر کے بغاوت یا تشدد کا راستہ اختیار کرے تو اس کے ساتھ مکالمہ ممکن نہیں رہتا۔ اگر امن کی تحریکوں کو کامیاب بنانا ہے تو اُنہیں آئینی دائرے میں رہ کر چلانا ہوگا۔ بغاوت یا اشتعال انگیزی کے بجائے مکالمہ اور اصلاحات کا راستہ اپنانا ہوگا۔ امن پاسون میں جو بیانیہ اختیار کیا گیا، وہ صرف ریاستی اداروں پر تنقید تک محدود نہ رہا بلکہ قومی یکجہتی اور اتحاد پر براہ راست حملہ ثابت ہوا۔ یہ کہنا کہ ریاستی ادارے دانستہ طور پر دہشت گردی کو ہوا دیتے ہیں، دراصل دشمن کے ان الزامات کی تائید ہے جو وہ عالمی سطح پر پاکستان کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔
یہ وہ وقت ہے جب پاکستان کو اندرونی یکجہتی اور استحکام کی شدید ضرورت ہے۔ دنیا بھر میں جغرافیائی اور اقتصادی تبدیلیاں ہو رہی ہیں۔ افغانستان میں صورت حال نازک ہے۔ ایسے میں اگر اندرونی خلفشار کو ہوا دی جائے، تو ملک کو بین الاقوامی سطح پر تنہا کرنے کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔ باجوڑ امن پاسون کا معاملہ ایک بار پھر اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ قبائلی علاقوں میں موجود مسائل پر توجہ کی ضرورت ہے، مگر اس توجہ کو تخریبی ایجنڈے کے تحت استعمال کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دی جا سکتی۔ امن، انصاف اور ترقی کے لیے مکالمہ، اتفاقِ رائے، اور آئینی راستے ضروری ہیں۔ اگر کوئی تحریک ان اصولوں سے ہٹ کر جذبات، انتشار اور سیاسی مفادات کی بنیاد پر چلائی جائے تو وہ نہ قبائلی عوام کی خدمت کرتی ہے نہ ریاست کی۔
پاکستان ایک مشکل دور سے گزر رہا ہے، اور ایسے وقت میں قومی وحدت، شعور اور اخلاص کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔ جلسے اور جلوس اگر اخلاص پر مبنی ہوں تو ان سے اصلاح آتی ہے اور اگر یہ صرف شوشے ہوں تو ان کا نتیجہ انتشار کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ظہیرال خان ایک مضبوط تعلیمی اور پیشہ ورانہ پس منظر کے ساتھ، وہ بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتا ہے اور بڑے پیمانے پر سیکورٹی اور اسٹریٹجک امور کے ماہر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
View all posts