Nigah

سدرہ بی بی کی المناک موت اور ہماری سماجی بے حس

rawalpindi niagh pk

راولپنڈی میں 18 سالہ سدرہ بی بی کے قتل نے پوری قوم کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ وہ ایک جوان، باشعور اور زندگی سے بھرپور لڑکی تھی۔ جس کا خواب تھا کہ وہ تعلیم مکمل کر کے اپنے پاؤں پر کھڑی ہو۔ مگر افسوس اُسے بھی اسی پُرانی سوچ نے نگل لیا جو عورت کو جائیداد، غیرت اور برادری کی عزت سے جوڑ کر دیکھتی ہے۔ سدرہ کو مبینہ طور پر اُس کے اپنے قریبی رشتہ داروں نے غیرت کے نام پر قتل کیا۔ اب تک 9 افراد گرفتار ہو چکے ہیں جن میں اس کا والد، چچا اور کزن شامل ہیں۔ اس افسوسناک واقعے نے ایک بار پھر یہ سوال کھڑا کر دیا ہے کہ کیا ہمارے معاشرے میں عورت کو جینے کا حق حاصل ہے؟

سدرہ بی بی کا تعلق متوسط گھرانے سے تھا۔ اس کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے رشتہ کرنا چاہتی تھی جسے اُس کے خاندان نے قبول نہیں کیا۔ بات چیت کے بجائے روایتی انا اور جھوٹی غیرت کے تحت فیصلہ کیا گیا کہ لڑکی کو عبرت کا نشان بنایا جائے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق اسے قتل کر کے خاموشی سے دفنا دیا گیا، لیکن کسی مقامی فرد کی اطلاع پر کیس منظر عام پر آیا۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ غیرت کے نام پر قتل آج بھی ہمارے معاشرے میں کس قدر قابل قبول جرم بن چکا ہے۔

غیرت کے نام پر قتل کو عام طور پر ایک ثقافتی مسئلہ سمجھ کر نظر انداز کیا جاتا ہے حالانکہ یہ ایک وحشیانہ قتل ہے جو انسانی حقوق، مذہبی تعلیمات اور ملکی قوانین کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ سدرہ بی بی کی ہلاکت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ ہمارا معاشرہ عورت کی مرضی کو قبول کرنے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں۔

پاکستان نے 2016 میں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف ایک ترمیمی قانون منظور کیا تھا جس کے تحت ایسے قاتلوں کو معافی نہیں دی جا سکتی۔ مگر بدقسمتی سے، سدرہ بی بی جیسے درجنوں کیسز میں قاتل اب بھی سماجی دباؤ، ثبوتوں کی کمی یا پولیس کی ناقص تفتیش کی وجہ سے بچ نکلتے ہیں۔ موجودہ کیس ریاستی مشینری کے لیے ایک امتحان ہے کہ آیا وہ اس کیس کو صرف میڈیا ہائپ تک محدود رکھتی ہے یا واقعی انصاف ہوتا ہے۔

ایک ایسے معاشرے میں جہاں ماں باپ کو بچوں کا محافظ سمجھا جاتا ہے وہاں جب والد خود اپنی بیٹی کا قاتل بن جائے تو یہ پورے معاشرتی ڈھانچے پر سوالیہ نشان بن جاتا ہے۔ سدرہ بی بی کا قتل اس تلخ حقیقت کو ظاہر کرتا ہے کہ کئی لڑکیوں کے لیے اُن کا اپنا گھر سب سے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔ تعلیم، شعور اور مذہبی فہم کے بغیر والدین اپنی اولاد کے سب سے بڑے دشمن بن سکتے ہیں۔

سدرہ کے قتل کے بعد سوشل میڈیا پر شدید ردعمل دیکھنے میں آیا۔ #JusticeForSidra کے ہیش ٹیگ کے تحت ہزاروں صارفین نے سدرہ کے حق میں آواز بلند کی۔ اداکاراؤں، صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ اس کیس میں مثالی سزا دی جائے۔ سوشل میڈیا نے ایک مرتبہ پھر ثابت کیا ہے کہ یہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جو آواز کو عالمی سطح پر بلند کر سکتا ہے لیکن حقیقی تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب ریاست اور عدلیہ بھی اس آواز پر عمل کرے۔

پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کی ایک بڑی وجہ تعلیم اور شعور کی کمی ہے۔ دیہی علاقوں میں ایسی وارداتیں زیادہ ہوتی ہیں جہاں عورت کو برابر انسان نہیں سمجھا جاتا۔ لڑکیوں کی تعلیم، میڈیا کی رسائی اور مکالمے کی فضا پیدا کیے بغیر ایسے واقعات کا تدارک ممکن نہیں۔ والدین، اساتذہ اور علما کو مل کر ایک ایسا ماحول بنانا ہو گا جہاں بیٹی کو عزت، حفاظت اور فیصلہ سازی کا حق حاصل ہو۔

بہت سے لوگ غیرت کے نام پر قتل کو مذہبی رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ اسلام میں کسی انسان کو بغیر عدالتی فیصلہ کے قتل کرنا سخت گناہ ہے۔ قرآن مجید واضح طور پر فرماتا ہے:

"جس نے کسی ایک انسان کو ناحق قتل کیا، گویا اُس نے پوری انسانیت کو قتل کیا۔” (سورہ المائدہ: 32)

نبی کریم ﷺ کی تعلیمات میں عورت کی عزت، احترام اور حفاظت کو بنیادی درجہ حاصل ہے۔ کسی کو اس بنا پر قتل کرنا کہ اس نے خاندان کی مرضی کے خلاف شادی کرنا چاہی صریحاً اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔

ریاست صرف قانون سازی تک محدود نہ رہے بلکہ اس قانون پر عمل درآمد بھی یقینی بنائے۔ عدالتوں میں ایسے کیسز کی فوری سماعت، گواہوں کو تحفظ اور متاثرہ خاندانوں کو قانونی مدد فراہم کی جانی چاہیے۔ خواتین کے لیے مخصوص ہیلپ لائنز، شیلٹر ہومز اور قانونی مشاورت کے مراکز کو فعال کیا جائے۔ اگر سدرہ بی بی کو بروقت قانونی تحفظ دیا جاتا تو شاید آج وہ زندہ ہوتی۔

میڈیا کا بھی فرض ہے کہ وہ صرف واقعے کی رپورٹنگ نہ کرے، بلکہ ایسے جرائم کے سماجی، مذہبی اور قانونی پہلوؤں پر عوام میں آگاہی بھی پیدا کرے۔ ڈراموں اور فلموں میں عورت کو محض مظلوم دکھانے کے بجائے اُسے باشعور، خودمختار اور قانون کا سہارا لینے والی شخصیت کے طور پر پیش کرنا چاہیے۔

سدرہ بی بی کی موت ایک فرد کا المیہ نہیں بلکہ پورے معاشرے کی اخلاقی شکست ہے۔ جب ایک معصوم لڑکی کو اُس کے اپنے خاندان کے ہاتھوں صرف اس لیے قتل کر دیا جائے کہ اُس نے زندگی اپنی مرضی سے جینے کی خواہش ظاہر کی تو یہ محض غیرت نہیں بلکہ ظلم، جبر اور جہالت کی انتہا ہے۔

اگر ہم واقعی چاہتے ہیں کہ سدرہ کی موت رائیگاں نہ جائے تو ہمیں بطور قوم اپنے رویے، اپنی سوچ اور اپنے قوانین پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ ہمیں ہر اس سوچ، رسم اور نظام کو چیلنج کرنا ہو گا جو عورت کی آزادی، خودمختاری اور زندگی کو محدود کرتا ہو۔

اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر حسین جان

    حسین جان کے علمی مفادات بین الاقوامی سلامتی، جغرافیائی سیاسی حرکیات، اور تنازعات کے حل میں ہیں، خاص طور پر یورپ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے۔ انہوں نے عالمی تزویراتی امور سے متعلق مختلف تحقیقی فورمز اور علمی مباحثوں میں حصہ ڈالا ہے، اور ان کا کام اکثر پالیسی، دفاعی حکمت عملی اور علاقائی استحکام کو تلاش کرتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔