Nigah

غیر رجسٹرڈ مدارس میں تشدد کا بڑھتا ہوا رجحان اور منظم نگرانی کی فوری ضرورت

madaris nigah pk

مدارسِ میں بچوں پر تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ان میں انکی ہلاکتوں نے پورے معاشرے کو جھنجھوڑ کر کے رکھ دیا ہے
سوات کے ایک غیر رجسٹرڈ مدرسہ میں رونما ہونے والے ایک دلخراش واقعے میں ایک بچہ فرحان کو تین مبینہ استاتزہ ظالمانہ تشدد کرکے قتل کر دیتے ہیں اور یوں چند ناسوروں کی وجہ سے مدارس بدنام ہو رہے ہیں
اس واقعے کی جو تفصیلات سامنے ہیں وہ رونگھٹے کھڑے کرنے والی ہے 14سالہ فرحان جو حصول تعلیم کے لیے مدرسہ جاتا ہے لیکن مدرسہ میں اساتذہ کے بے رحمانہ تشدد کا شکار ہو کر زندگی کی بازی ہار جاتا ہے
اس قتل کے بعد ملزمان مدرس باپ بیٹا فرار جاتے ہیں مگر بعد ازاں انھیں گرفتار کر لیا جاتا ہے
یہ نہایت افسوسناک وقوعہ ہے جو نہ صرف ظلم و بربریت کا مظہر ہے بلکہ یہ اس نظام کی ناکامی کا غماز بھی ہے جو دینی تعلیم کے نام پر بچوں کے بنیادی انسانی و اسلامی حقوق کو پامال کرتا ہے۔
افسوسناک امر یہ ہے کہ جس مدرسہ میں یہ وقوعہ ہوا وہ سرکاری طور پر رجسٹرڈ ہی نہیں تھا۔ اگر رجسٹریشن، نگرانی اور تربیتی اصلاحات کا مؤثر نظام موجود ہوتا تو شاید فرحان آج زندہ ہوتا۔
یہ سانحہ صرف ایک بچے کا قتل نہیں بلکہ اسلام کے پربامن و رحم دل تصور تعلیم کی تذلیل ہےاور ان ہزاروں باوقار مدارس کی بدنامی کا سبب بھی جو امن، علم، اور اخلاقیات کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔
فرحان کا قتل ایک المیہ نہیں، ایک وارننگ ہے کہ اگر غیر رجسٹرڈ مدارس کو بے لگام چھوڑ دیا جائے تو یہ بچوں کی جانوں سے کھیلنے کے مترادف ہوگا۔ اسلام تو کمزوروں کے تحفظ کو ایمان کا درجہ دیتا ہے۔
• نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے” فرحان جیسے معصوم طالب علم پر ظلم دین کی نہیں، جہالت کی علامت ہے۔
• قرآن کہتا ہے: "لقد کرمنا بنی آدم”
جب انسان کو اللہ نے عزت دی تو دینی ادارہ کیسے بچے کو ذلت میں دھکیل سکتا ہے؟
رجسٹریشن اس عزت کی حفاظت کا راستہ ہے۔
مدرسہ، پیغمبرانہ وراثت ہے اور پیغمبر ﷺ نے کبھی کسی طالب علم پر ہاتھ نہ اٹھایا۔ جو ادارے اس سنت کی خلاف ورزی کریں ان کا محاسبہ شرعاً بھی لازم ہے اور قانوناً بھی۔
فرحان کی موت صرف جسمانی نہیں، قومی ضمیر کی اخلاقی شکست بھی ہے۔ مدرسوں کی رجسٹریشن اس ضمیر کی بیداری کا پہلا قدم ہونا چاہیے۔ اگر مدرسے میں تعلیم کے بجائے تشدد ہو، تو وہ دین نہیں سکھا رہا بلکہ ظلم کے اسباب پیدا کر رہا ہے اور ظلم کے خلاف کھڑے ہونا اسلامی فریضہ ہے۔
یہاں یہ امر بھی نہایت قابل ذکر ہے کہ بد قسمتی سے پاکستان میں کوئی بھی شخص مدرسہ قائم کر لیتا ہے۔ نہ کوئی ضابطہ، نہ کوئی معیار، نہ زمین کے لیے کوئی شرط، نہ کھیل کے میدان کا تقاضا۔
یہ بے ضابطگی اس لیے برقرار ہے کہ ریاست مذہبی قوتوں کے دباؤ سے خوفزدہ ہے اور قانون سازی کرنے سے ڈرتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مدارس ایک متوازی نظام کی صورت میں بغیر کسی نگرانی کے چل رہے ہیں، اور یہ نظام خاموشی سے سماج کی جڑوں میں پھیل چکا ہے۔
یہ صرف تعداد کا مسئلہ نہیں بلکہ مستقبل کا سوال ہے۔ ہر سال ہر ضلعے میں ہزاروں طلبا فارغ التحصیل ہو کر نکلتے ہیں مگر ان کے پاس دینی نصاب کے علاوہ کوئی ہنر نہیں ہوتا۔ وہ جدید دنیا کے تقاضوں سے ناواقف ہوتے ہیں۔ یہ خلا انہیں اسی محدود دائرے میں قید کر دیتا ہے۔ کوئی زمین وقف کرا لیتا ہے، کچھ چندہ اکٹھا کرتا ہے، نیچے مدرسہ اوپر گھر بن جاتا ہے اور یوں ایک اور غیر معیاری ادارہ کھل جاتا ہے۔
یہ سلسلہ جاری رہتا ہے اور کوئی اسے روکنے والا نہیں۔
اساتذہ کے معاملے میں بھی کوئی واضح معیار نہیں۔ آج بھی بیشتر مدارس میں جس شخص کو چاہا، محض چندہ اکٹھا کرنے کی صلاحیت یا کسی خاص مسلک سے قربت کی بنیاد پر مدرس لگا دیا جاتا ہے۔ کوئی ٹریننگ نہیں، کوئی تدریسی اصول نہیں۔ اساتذہ کی تنخواہیں اتنی کم ہیں کہ وہ خود غربت کے بوجھ تلے دبے رہتے ہیں۔ تدریس ان کے لیے مشن کے بجائے محض گزارے کا ذریعہ بن کر رہ جاتی ہے۔
مدارس کے اندر کا ماحول بھی بیشتر جگہوں پر غیر انسانی ہے۔ طلبا کا کھانا پینا مناسب نہیں، رہائش گاہیں تنگ و تاریک ہیں، کلاس رومز میں روشنی اور ہوا کا انتظام بھی کمزور ہوتا ہے۔ گھٹن زدہ ماحول میں تخلیقی سوچ پنپ نہیں سکتی۔ جسمانی سزا اب بھی عام ہے۔ بچوں کے ذہن میں جو سوالات جنم لیتے ہیں، انہیں پوچھنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ اگر پوچھیں تو انہیں ڈانٹ پڑتی ہے یا مار پڑتی ہے۔ نتیجہ یہ کہ وہ سوالات دب جاتے ہیں اور ذہنی جمود پیدا ہو جاتا ہے۔
تربیت میں ایک خطرناک یک رنگی ہے۔ ان مدارس میں بچے دنیاوی علوم سے دور رکھے جاتے ہیں۔ ان کے نصاب میں نہ جدید سائنس ہے، نہ ریاضی، نہ سوشل سائنسز۔ کوئی فنی تعلیم نہیں، کوئی کمپیوٹر یا ٹیکنالوجی کی تربیت نہیں۔ نہ کھیلوں کا کوئی میدان ہے، نہ نصابی سرگرمیاں۔ بچے صرف رٹنے والے ذہن کے ساتھ بڑے ہوتے ہیں اور ایک ایسے معاشرے میں قدم رکھتے ہیں جو بدل رہا ہے، ترقی کر رہا ہے، مگر وہ اس میں فٹ نہیں بیٹھ پاتے۔
یہ صورت حال صرف تعلیمی پسماندگی نہیں بلکہ سماجی مسائل کو جنم دینے والا ایک دھماکہ خیز مواد ہے۔ ایک ایسا طبقہ پیدا ہو رہا ہے جو نہ مکمل دینی عالم ہے نہ جدید دور کا شہری۔
ان کے پاس معیشت کے لیے کوئی راستہ نہیں، سوائے اس کے کہ وہی چکر دہرایا جائے: پھر ایک مدرسہ کھولو، پھر چندہ لو، پھر مزید بچے پیدا کرو جو اسی چکر میں پلیں۔
یہ سب کچھ صرف فرد کا نہیں بلکہ پورے معاشرے کا نقصان ہے۔
ہمیں مدارس کو سکولوں کے قوانین کے دائرے میں لانا ہوگا۔ مدرسہ قائم کرنے کے لیے باقاعدہ زمین کا رقبہ، بڑی اور محفوظ عمارت، کھیل کے میدان، لیبارٹریز اور لائبریریاں لازمی قرار دی جائیں۔ اساتذہ کے لیے سخت معیار ہوں، انہیں جدید تدریسی تربیت دی جائے اور ان کی تنخواہیں اتنی ہوں کہ وہ باوقار زندگی گزار سکیں۔ طلبا کے لیے معیاری کھانا، مناسب رہائش، اور کھلی فضا میں کھیلنے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔
مدارس کے نصاب میں جدید سائنس، ریاضی، کمپیوٹر اور سماجی علوم کو شامل کرنا ضروری ہے۔ انہیں فنی تربیت دی جائے تاکہ فارغ ہونے کے بعد وہ معاشی طور پر خود مختار ہو سکیں۔ اس طرح یہ بچے صرف درس دینے والے نہیں بلکہ ایک وسیع علم اور ہنر رکھنے والے شہری بن سکیں گے۔
فنڈنگ کے نظام کو شفاف بنانا لازمی ہے۔ افراد سے لیے جانے والے چندوں پر پابندی لگائی جائے اور ہر مدرسے کے مالی معاملات کا سالانہ آڈٹ ہو۔ حکومت کے ماتحت ایک آزاد مانیٹرنگ باڈی ہو جو ہر سال مدارس کے نصاب، اساتذہ کی کارکردگی، اور مالی شفافیت پر رپورٹ جاری کرے۔
طلبا کی نفسیاتی اور فکری تربیت پر توجہ دینا وقت کی ضرورت ہے۔ ان کے سوالات کو دبانے کے بجائے ان کے جوابات تلاش کرنے کا ماحول پیدا کیا جائے۔ مختلف مسالک کے علما کو ایک ساتھ بٹھا کر مشترکہ ورکشاپس اور علمی نشستیں رکھی جائیں تاکہ طلبا کے ذہن میں وسعت پیدا ہو اور وہ اختلافِ رائے کو برداشت کرنا سیکھیں۔ انہیں فنونِ لطیفہ، کھیلوں اور معاشرتی سرگرمیوں سے جوڑا جائے تاکہ ان کی شخصیت میں توازن اور ہم آہنگی پیدا ہو۔
یہ سب کچھ کسی مذہب دشمنی کے لیے نہیں بلکہ اسی دین کی تعلیم کو محفوظ اور معیاری بنانے کے لیے ہے۔ مدارس کو جدید دنیا سے ہم آہنگ کیے بغیر ہم ایک ایسی نسل تیار کر رہے ہیں جو سماج سے کٹی ہوئی ہے، جو سوال کرنے سے ڈرتی ہے، جو خواب دیکھنے سے محروم ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ یہ بچے مستقبل کے روشن فکر علما، محققین، استاد اور معاشرے کے کار آمد شہری بنیں تو ہمیں مدارس کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا۔
یہ صرف ایک تعلیمی اصلاح نہیں بلکہ ایک قومی بقا کا سوال ہے۔
نبی ﷺ نے فرمایا: "مجھے معلّم بنا کر بھیجا گیا ہے”
ایک معلّم کا کام محبت، حلم، اور شفقت کے ذریعے اصلاح ہے، نہ کہ جبر و سزا کے ذریعے
یہ وقت صرف مجرموں کو پکڑنے کا نہیں بلکہ نظام کو درست کرنے کا ہے۔ ورنہ کل ایک اور فرحان، ایک اور جنازہ، اور ایک اور مذمتی بیان ہمیں شرمندہ کرتا رہے گا۔
مدارس کی رجسٹریشن اُن مدارس کا تحفظ ہے جو واقعی دین کی خدمت کر رہے ہیں، تاکہ چند ناسوروں کی وجہ سے سب کو بدنام نہ ہونا پڑے۔
اسلام کا تصورِ تعلیم تزکیہ اور اخلاق پر مبنی ہے، نہ کہ خوف اور تشدد پر۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ ہر مدرسہ اسی قرآنی و نبوی معیار پر چلایا جائے اور اس کا پہلا قدم رجسٹریشن و نگرانی کا مؤثر نظام ہے۔


اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر مزمل خان

    مزمل خان سیاست اور بین الاقوامی معاشیات میں گہری دلچسپی کے ساتھ، ان کا تعلیمی کام اس بات کی کھوج کرتا ہے کہ کس طرح بنیادی ڈھانچہ اور جغرافیائی سیاسی حرکیات تجارتی راستوں اور علاقائی تعاون کو متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر جنوبی اور وسطی ایشیا میں۔ موزممل شواہد پر مبنی تحقیق کے ذریعے پالیسی مکالمے اور پائیدار ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے پرجوش ہے اور اس کا مقصد تعلیمی انکوائری اور عملی پالیسی سازی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔