پاکستان طویل عرصے سے توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا آیا ہے لیکن حالیہ برسوں میں یہ احساس بڑھا ہے کہ ملک کے اندر موجود تیل و گیس کے ذخائر کو بہتر انداز میں دریافت اور استعمال کر کے نہ صرف توانائی کے بحران پر قابو پایا جا سکتا ہے بلکہ معیشت کو بھی نئی سمت دی جا سکتی ہے۔ اس شعبے میں 100 ارب امریکی ڈالر تک کی سرمایہ کاری کے امکانات موجود ہیں بشرطیکہ حکومت پالیسی میں استحکام، شفافیت اور سرمایہ کاروں کے لیے محفوظ ماحول فراہم کرے۔ یہ وہ عناصر ہیں جو بین الاقوامی توانائی کمپنیوں کو پاکستان کی جانب متوجہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں۔
پاکستان میں اب بھی کئی ایسے ذخائر موجود ہیں جو مکمل طور پر دریافت نہیں ہوئے۔ خاص طور پر سندھ کے ساحلی علاقے اور بلوچستان کے کچھ حصے اب بھی تحقیق اور ترقی کے منتظر ہیں۔ ان ذخائر تک رسائی اور ان کے مؤثر استعمال سے نہ صرف ملکی توانائی و تحفظ میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ درآمدات پر انحصار میں نمایاں کمی بھی آسکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں تجارتی خسارہ کم ہو سکتا ہے اور ملکی کرنسی پر دباؤ بھی کم ہوگا۔ اس کے علاوہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں اضافے کے امکانات بھی روشن ہیں جو معیشت کے دیگر شعبوں میں بھی ترقی اور استحکام کا باعث بن سکتا ہے۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہے جب پاکستان اور امریکہ کے درمیان توانائی کے شعبے میں تعاون کے لیے حالیہ مذاکرات کے بعد عالمی سطح پر پاکستان میں دلچسپی بڑھتی جا رہی ہے۔ ماہرین کے مطابق اس دلچسپی سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو فوری طور پر ایسی حکمتِ عملی اپنانا ہوگی جو عالمی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو مستحکم کرے۔ اس میں ٹیکس مراعات، تیز تر لائسنسنگ کا عمل اور جدید ٹیکنالوجی کے لیے شراکت داری شامل ہو سکتی ہے۔
عالمی منظرنامے پر توانائی کی دوڑ تیز ہو رہی ہے۔ خلیجی ممالک، ایران، قطر اور وسطی ایشیا کے کچھ حصے توانائی کے ذخائر کے حوالے سے پہلے ہی دنیا کی توجہ کا مرکز ہیں۔ ایسے میں پاکستان کو اپنی جغرافیائی اور وسائل کی پوزیشن کو مؤثر انداز میں پیش کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی اہمیت صرف ذخائر کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کے محلِ وقوع کی وجہ سے بھی ہے کیونکہ یہ خطہ مشرقِ وسطیٰ، وسطی ایشیا اور جنوبی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے جہاں سے توانائی کی ترسیل کے بڑے راستے گزر سکتے ہیں۔
اس پہلو کو عالمی سرمایہ کاروں کے سامنے ایک مضبوط نکتہ کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔
پالیسی اور ریگولیٹری ماحول سرمایہ کاری کے فیصلوں میں بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ پاکستان کو اس شعبے میں طویل المدتی پالیسی کا اعلان کرنا چاہیے تاکہ سرمایہ کاروں کو یقین ہو کہ ان کے منصوبوں میں اچانک کوئی غیر متوقع رکاوٹ نہیں آئے گی۔ قانون سازی میں تسلسل، عدالتی تحفظ اور شفاف ریگولیٹری ادارے سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ توانائی منصوبوں میں اکثر سرمایہ کاری کا دورانیہ دس سے پندرہ سال ہوتا ہے اس لیے پالیسی میں بار بار تبدیلی سرمایہ کاروں کو ہچکچاہٹ میں مبتلا کر سکتی ہے۔
اس شعبے میں سرمایہ کاری کا ایک بڑا فائدہ مقامی معیشت اور روزگار کے مواقع میں اضافہ ہے۔ توانائی کے منصوبے نہ صرف براہ راست روزگار فراہم کرتے ہیں بلکہ متعلقہ صنعتوں جیسے تعمیرات، ٹرانسپورٹ اور سروسز کے شعبوں کو بھی فعال کر دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ مقامی آبادی کو فنی تربیت اور مہارت کے مواقع ملتے ہیں جو طویل المدتی معاشی ترقی کا باعث بنتے ہیں۔ اگر یہ منصوبے ماحول دوست ٹیکنالوجی کے ساتھ نافذ کیے جائیں تو پاکستان پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول میں بھی نمایاں پیش رفت کر سکتا ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے حالیہ مذاکرات میں توانائی کے شعبے میں ٹیکنالوجی کی منتقلی، جدید ڈرلنگ کے طریقے اور قابلِ تجدید توانائی میں تعاون جیسے پہلو زیرِ بحث آئے۔ یہ شراکت داری پاکستان کو جدید ٹیکنالوجی تک رسائی دے سکتی ہے جس سے تیل و گیس کی تلاش کے عمل میں لاگت کم اور پیداوار میں اضافہ ممکن ہے۔ مزید برآں امریکہ جیسے بڑے توانائی شراکت دار کا اعتماد عالمی سرمایہ کاروں کے لیے مثبت اشارہ ثابت ہو سکتا ہے۔
تاہم اس موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے پاکستان کو چند بڑے چیلنجز سے بھی نمٹنا ہوگا۔ ان میں بنیادی ڈھانچے کی بہتری، توانائی کی ترسیل کے نظام کی اپ گریڈیشن اور سیکورٹی کے خدشات کا مؤثر حل شامل ہے۔ بلوچستان اور ساحلی سندھ جیسے علاقوں میں سرمایہ کاری کے لیے مستحکم سکیورٹی پلان ضروری ہوگا تاکہ سرمایہ کار بلا خوف و خطر منصوبے شروع کر سکیں۔
آخر میں اگر پاکستان اپنی پالیسی میں استحکام، شفافیت اور سرمایہ کار دوست اقدامات کو ترجیح دے تو نہ صرف 100 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ممکن ہے بلکہ یہ سرمایہ کاری ملک کی معیشت اور توانائی کے تحفظ کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے۔
اس سے پاکستان خطے میں ایک اہم توانائی مرکز کے طور پر ابھر سکتا ہے جو نہ صرف اپنی ضروریات پوری کرے گا بلکہ پڑوسی ممالک کے لیے بھی توانائی کا قابلِ اعتماد ذریعہ بنے گا۔
اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
حسین جان کے علمی مفادات بین الاقوامی سلامتی، جغرافیائی سیاسی حرکیات، اور تنازعات کے حل میں ہیں، خاص طور پر یورپ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے۔ انہوں نے عالمی تزویراتی امور سے متعلق مختلف تحقیقی فورمز اور علمی مباحثوں میں حصہ ڈالا ہے، اور ان کا کام اکثر پالیسی، دفاعی حکمت عملی اور علاقائی استحکام کو تلاش کرتا ہے۔
View all posts