Nigah

بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور آرمی چیف کا دو ٹوک موقف

nigah asim munir

پاکستان کی مسلح افواج کے سربراہ فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر نے امریکہ کے ایک غیر معمولی دورے کے دوران عسکری و پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کے دوران واشگاف الفاظ میں کہا ہے کہ اگر پاکستان کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ جوہری ہتھیار آخری آپشن کے طور پر استعمال کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
آرمی چیف عاصم منیر نے بلاشبہ پاکستان کا اصولی موقف پیش کیا ہے کہ پاکستان جوہری دفاعی نظریے کو نہایت متوازن اور عالمی قوانین کے مطابق استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے۔ جوہری ہتھیار کسی مہم جوئی یا جارحیت کے جواب میں آخری حربہ کے طور پر صرف اپنے وطن کی دفاع کے لئے استعمال کئے جائیں گے۔

آرمی چیف سید عاصم منیر کے اس واضح اور دو ٹوک موقف کو عالمی میڈیا نے بڑے اہتمام کے ساتھ اجاگر کیا ہے جسے بد قسمتی سے بھارت ہضم نہ کر سکا ہے اور پاکستان کے سپہ سالار کے بیان کو توڑ مروڑ اور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بھارتی حکومتی حلقے اور گودی میڈیا ہمارے فیلڈ مارشل کا بیان ایسے پیش کررہے ہیں کہ جیسے پاکستان جوہری ہتھیاروں کے بلاجواز استعمال کی دھمکی دے رہا ہو۔

بھارت کی جانب سے پاکستان پر ایٹمی دھمکی دینے کے الزام پر پاکستان کے دفترِ خارجہ نے کہا کہ بھارتی الزامات گمراہ کن ہیں۔ پاکستان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ طاقت کے استعمال کے خلاف ہے اور پاکستان ایٹمی طاقت کی حامل ایک ذمہ دار ریاست ہے۔

انڈین وزارت خارجہ نے کہا تھا کہ یہ بھی افسوسناک ہے کہ یہ بیانات تیسرے ملک کی سرزمین سے دئے گئے ہیں۔ اس پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستانی دفتر خارجہ نے کہا کہ پاکستان پر دباؤ ڈالنے کے لئے تیسرے ملک کا ذکر تشویشناک ہے۔ یہ نہ صرف انڈیا کے سفارتی اعتماد کے فقدان بلکہ بلا ضرورت تیسرے ملکوں کو گھسیٹنے کی ناکام کوششوں کو ظاہر کرتا ہے۔

پاکستانی دفتر خارجہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ اس کی سالمیت اور علاقائی خودمختاری کی خلاف ورزی پر فوری اور موثر جواب دیا جائے گا۔

nigah asim munir tech

قارئین کرام ا
اصل کہانی تو یہی ہے کہ معرکہ حق میں ذلت آمیز شکست اور عالمی برادری میں ساکھ کھونے کے بعد بھارتی قیادت اپنے زخم چاٹ رہی تھی کہ اس دوران پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو دو بار امریکی حکام نے خصوصی دعوت پر امریکہ بلوایا جس پر بھارتی قیادت بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئی ہے۔

آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے پاکستان کا اصولی موقف پیش کیا کہ پاکستان جوہری دفاعی نظریے کو نہایت متوازن اور عالمی قوانین کے مطابق استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے۔ جوہری ہتھیار کسی مہم جوئی کے جواب میں آخری حربہ کے طور پر صرف اپنے وطن کی دفاع کے لیے استعمال کئے جائیں گے۔

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے اس واضح اور دو ٹوک موقف کو عالمی میڈیا نے بڑے پیمانے پر اجاگر کیا۔ اس عالمی پذیرائی کو بھارت ہضم نہ کر سکا اور پاکستان کے سپہ سالار کے بیان کو توڑ مروڑ اور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ گودی میڈیا اور بھارتی حکومتی حلقے اسے ایسے پیش کر رہے ہیں کہ جیسے پاکستان جوہری ہتھیاروں کے بلا جواز استعمال کی دھمکی دے رہا ہو۔ یہ غیر ذمہ دارانہ عمل نہ صرف سفارتی آداب کے منافی بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ بھارت کے خطے میں تھانیدار بننے کی خواہش کو پاک فوج نے نہ صرف ناکام بنایا بلکہ عالمی برادری پر ثابت کر دیا کہ بھارت ایک غیر ذمہ دار ریاست کے طور پر خطے میں دہشت گردی کو مکمل سپورٹ کر رہی ہے اور جنوبی ایشیا کو جوہری جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے۔

اسی تناظر میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کے خطاب کو بد تہذیبی کے انداز میں تشریح کر رہی ہے۔ دراصل فیلڈ مارشل نے پاکستان کے وجود کو خطرہ لاحق ہونے کی صورت میں جوہری ہتھیار آخری آپشن کے طور پر استعمال کرنے کے محفوظ حق کی بات کی ہے جو پاکستان کے جوہری نظریے کا ایک بنیادی اصول ہے اور اسے دنیا بھر میں ایک جائز دفاعی حکمت عملی تسلیم کیا جاتا ہے۔

بھارت جانتے بوجھتے پاکستان کو اشتعال دلا کر غلط قدم اٹھانے پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان نے بھارتی جارحیت اور جنگی جنون کے باوجود ہمیشہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور بھارت کی سرحدی خلاف ورزیوں پر منظم اور موثر جوابی کاروائی کی۔

ایک ذمہ دار ریاست ہونے کے ناطے پاکستان نے جوہری پروگرام کو ہمیشہ سے کم سے کم دفاعی صلاحیت کے اصول پر استوار کیا ہے یعنی پاکستان دفاع کے لیے اتنی ہی صلاحیت رکھتا ہے جس سے دشمن کو توسیع پسندانہ عزائم سے باز رکھا جا سکے۔

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اپنے دور امریکہ میں یہی موقف دہرایا کہ اگر پاکستان کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق ہو تو جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے جو کسی طرح سے غیر اخلاقی بات نہیں۔ پانچ بڑی عالمی جوہری طاقتیں بھی اپنے قومی سلامتی کے لیے یہی موقف رکھتی ہیں۔

بد قسمتی سے بھارت کی موجودہ قیادت کا المیہ یہ ہے کہ وہ من گھڑت بیانیہ بنا کر حقائق کو مسخ کر کے عالمی رائے عامہ کو گمراہ بنانے کی کوشش کرتی ہے۔ تاہم پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے دوران بھارت کا بے بنیاد بیانیہ زمین بوس ہو چکا ہے۔

بھارتی قیادت کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کے جوہری بلیک میل سے خوفزدہ نہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ممکنہ جوہری جنگ روکنے کے لیے براہ راست مداخلت کی جس سے بھارت کے جھوٹے دعوے بے نقاب ہوتے ہیں۔

nigah asim munir vs trump tarrif

اگر دیکھا جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان جب بھی صورتحال کشیدہ ہوئی تو اس کے ڈانڈے بھارت سے ہی ملتے ہیں۔ اسی لیے بھارت نے پہلگام واقعہ کی پاکستان کی طرف سے عالمی مبصرین کے ذریعے تحقیقات کرانے کی پیشکش سے انکار کیا اور کوئی ثبوت بھی پیش نہ کر سکا۔

پاکستان کے موقف کو مسخ کرنے کا بنیادی مقصد خطے میں عدم استحکام کو بڑھانے کی بھارتی خواہش ہے۔ عالمی برادری خصوصا بڑی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھارت کے اس بچکانہ طرز عمل کا نوٹس لینا چاہیے۔

جنوبی ایشیا میں دو ایٹمی طاقتوں کی موجودگی میں بھارت کا غیر ذمہ دارانہ طرز عمل دنیا کے لیے تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ بھارت کو ایٹمی معاملات پر اشتعال انگیزی کی بجائے حقیقت پسندانہ اور سنجیدہ مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہیے۔

قارئین محترم ا
اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت کی الزام تراشیوں کا مقصد مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت سے روکنے کے لیے مظالم پر پردہ ڈالنا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کی دیگر ریاستوں میں بھی علیحدگی پسند تحریکیں عروج پر ہیں۔ بھارت میں مسلمان، عیسائی، سکھ اور دیگر اقلیتی برادری محفوظ نہیں۔ پاکستان، امریکہ، کینیڈا اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھارت ریاستی سطح پر دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو سپورٹ کررہا ہے۔ اپنے مذموم اور توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے پاکستان جیسے ذمہ دار ملک پر بے بنیاد الزامات عائد کررہاہے۔

مہذب دنیا بھی یہ بات جانتی کہ پاکستان خطے میں امن کا داعی ہے اور بھارت کو متعدد بار برابری کی سطح پر مثبت بات چیت کی پیشکش کر چکا ہے۔ ہم یہاں اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے کہ قوم کی بقا کے لیے ضروری اقدامات کرنے کا حق ہر خود مختار ملک کو حاصل ہے اور پاکستان اسی اصول کو مدنظر رکھتے ہوئے کبھی بھی اپنی سلامتی اور خود مختاری کے دفاع سے ایک انچ یا ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے گا۔

فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے پاکستان کا اصولی موقف پیش کیا کہ پاکستان جوہری دفاعی نظریے کو نہایت متوازن اور عالمی قوانین کے مطابق استعمال کرنے کا حق رکھتا ہے۔ جوہری ہتھیار کسی مہم جوئی یا جارحیت کے جواب میں آخری حربہ کے طور پر صرف اپنے وطن کی دفاع کے لیے استعمال کئے جائیں گے۔ جنرل عاصم منیر کے اس واضح اور دو ٹوک موقف کو عالمی میڈیا نے بڑے پیمانے پر اجاگر کیا۔ اس پذیرائی کو بھارت ہضم نہ کر سکا اور پاکستان کے سپہ سالار کے بیان کو توڑ مروڑ اور سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کرنے کی کوشش کی۔ گودی میڈیا اور بھارتی حکومتی حلقے اسے ایسے پیش کر رہے ہیں کہ جیسے پاکستان جوہری ہتھیاروں کے بلا جواز استعمال کی دھمکی دے رہا ہو۔ یہ غیر ذمہ دارانہ عمل نہ صرف سفارتی آداب کے منافی بلکہ خطے کے امن کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

یہ بات واضح ہے کہ بھارت کے خطے میں تھانیدار بننے کی خواہش کو پاک فوج نے نہ صرف ناکام بنایا بلکہ عالمی برادری پر ثابت کر دیا کہ بھارت ایک غیر ذمہ دار ریاست کے طور پر خطے میں دہشت گردی کو مکمل سپورٹ کر رہی ہے اور جنوبی ایشیا کو جوہری جنگ کی طرف دھکیل رہی ہے۔

اسی تناظر میں فیلڈ مارشل عاصم منیر کے خطاب کو بد تہذیبی کے انداز میں تشریح کر رہی ہے۔ فیلڈ مارشل نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ اگر پاکستان کے وجود کو خطرہ لاحق ہوا تو وہ جوہری ہتھیار آخری آپشن کے طور پر استعمال کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے جو پاکستان کے جوہری نظریے کا ایک بنیادی اصول ہے اور اسے دنیا بھر میں ایک جائز دفاعی حکمت عملی تسلیم کیا جاتا ہے۔ بھارت جانتے بوجھتے پاکستان کو اشتعال دلا کر غلط قدم اٹھانے پر مجبور کرنا چاہتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان نے بھارتی جارحیت اور جنگی جنون کے باوجود ہمیشہ صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور بھارت کی سرحدی خلاف ورزیوں پر منظم اور موثر جوابی کاروائی کی۔

ایک ذمہ دار ریاست ہونے کے ناطے پاکستان نے جوہری پروگرام کو ہمیشہ سے کم سے کم دفاعی صلاحیت کے اصول پر قائم کیا ہے یعنی پاکستان دفاع کے لیے اتنی ہی صلاحیت رکھتا ہے جس سے دشمن کو توسیع پسندانہ عزائم سے باز رکھا جا سکے۔ فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے اپنے دور امریکہ میں یہی موقف دہرایا کہ اگر پاکستان کے وجود کو کوئی خطرہ لاحق ہو تو جوہری ہتھیار استعمال کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہے جو کسی طرح سے غیر اخلاقی بات نہیں۔ پانچ بڑی عالمی جوہری طاقتیں بھی اپنے قومی سلامتی کے لیے یہی موقف رکھتی ہیں۔

بھارت کی موجودہ قیادت کا المیہ یہ ہے کہ وہ من گھڑت بیانیہ بنا کر حقائق کو مسخ کر کے عالمی رائے عامہ کو گمراہ بنانے کی کوشش کرتی ہے تاہم پاک بھارت حالیہ کشیدگی کے دوران بھارت کا بے بنیاد بیانیہ پٹ گیا۔

بھارتی قیادت کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کے جوہری بلیک میل سے خوفزدہ نہیں جبکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت کے درمیان ممکنہ جوہری جنگ روکنے کے لیے براہ راست مداخلت کی جس سے بھارت کے جھوٹے دعوے بے نقاب ہوتے ہیں۔

ماضی پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستان اور بھارت کے درمیان جب بھی صورتحال کشیدہ ہوئی تو اس کے ڈانڈے بھارت سے ہی ملتے ہیں۔ اسی لیے بھارت نے پہلگام واقعہ کی پاکستان کی طرف سے عالمی مبصرین کے ذریعے تحقیقات کرانے کی پیشکش سے انکار کیا اور کوئی ثبوت بھی پیش نہ کر سکا۔

پاکستان کے موقف کو مسخ کرنے کا بنیادی مقصد خطے میں عدم استحکام کو بڑھانے کی بھارتی خواہش ہے۔ عالمی برادری خصوصا بڑی طاقتوں اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو بھارت کے اس بچکانہ طرز عمل کا نوٹس لینا چاہیے۔

جنوبی ایشیا میں دو ایٹمی طاقتوں کی موجودگی میں بھارت کا غیر ذمہ دارانہ طرز عمل دنیا کے لیے تباہی کا سبب بن سکتا ہے۔ بھارت کو ایٹمی معاملات پر اشتعال انگیزی کی بجائے حقیقت پسندانہ اور سنجیدہ مذاکرات کا راستہ اپنانا چاہیے۔

اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بھارت کی الزام تراشیوں کا مقصد مقبوضہ کشمیر کے عوام کو حق خود ارادیت سے روکنے کے لیے مظالم پر پردہ ڈالنا ہے۔ اس کے علاوہ بھارت کی دیگر ریاستوں میں بھی علیحدگی پسند تحریکیں عروج پر ہیں۔ بھارت میں مسلمان، عیسائی، سکھ اور دیگر اقلیتی برادری محفوظ نہیں۔ پاکستان، امریکہ، کینیڈا اور دنیا کے دیگر ممالک میں بھارت ریاستی سطح پر دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو سپورٹ کررہا ہے۔ اپنے مذموم اور توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے پاکستان جیسے ذمہ دار ملک پر بے بنیاد الزامات عائد کررہاہے۔

مہذب دنیا یہ بات جانتی کہ پاکستان خطے میں امن کا داعی ہے اور بھارت کو متعدد بار برابری کی سطح پر مثبت بات چیت کی پیشکش کی مگر اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ قوم کی بقا کے لیے ضروری اقدامات کرنے کا حق ہر خود مختار ملک کو حاصل ہے۔


اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر حسین جان

    حسین جان کے علمی مفادات بین الاقوامی سلامتی، جغرافیائی سیاسی حرکیات، اور تنازعات کے حل میں ہیں، خاص طور پر یورپ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے۔ انہوں نے عالمی تزویراتی امور سے متعلق مختلف تحقیقی فورمز اور علمی مباحثوں میں حصہ ڈالا ہے، اور ان کا کام اکثر پالیسی، دفاعی حکمت عملی اور علاقائی استحکام کو تلاش کرتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔