حالیہ پاک بھارت جنگ نے ایٹمی طاقت پاکستان کو ترقی و خوشحالی کے ایک ایسے سفر پر گامزن کردیا ہے جسے دنیا بھر میں حیرانی سے دیکھا اور محسوس کیا جارہا ہے۔
جنگ کا میدان ہو یا پھر معاشی ترقی کا سفر، پاکستان کی مدبر قیادت کا کردار جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
الحمدللہ آج پاکستان کو ایک خودمختار خلائی طاقت بنانے کی جانب بہت بڑی پیش رفت دیکھنے کو مل رہی ہے۔
پاکستان ایک جدید ریموٹ سینسنگ سیٹلائٹ خلا میں بھیج چکا ہے جو چین کے شہر چانگ لانچ سینٹر سے لانچ ہوا۔
اور اسے چاند کے جنوبی قطب کی طرف روانہ کیا جائے گا۔
اس سیٹلائٹ کی خاص بات یہ ہے کہ اسے سپارکو نے مقامی سطح پر تیار کیا ہے۔ یہ مشن (2018) PRSS-1 اور (2025) EO-1 کی کامیابیوں کا تسلسل ہے جو پاکستان کی خلائی ترقی کو ظاہر کرتا ہے۔
یہاں یہ امر خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ الیکٹرو آپٹیکل سیٹلائٹ EO-1 پاکستان کا مکمل طور پر اپنا تیار کردہ مشاہداتی سیٹلائٹ ہے جسے پاکستان نے جنوری 2025 میں لانچ کیا تھا۔ اس سے قبل 2024 میں پاکستان کے دو خلاء بازوں نے چین کی تیانگونگ خلائی اسٹیشن میں اپنا تربیتی پروگرام مکمل کیا تھا۔ یہاں یہ بھی بتاتا چلوں کہ پاکستان اور چین کے درمیان خلائی تعاون بھی مسلسل فروغ پا رہا ہے جو تربیت، سائنسی مشنز اور چاند کے منصوبوں پر مشتمل ہے۔
پاکستان کی جانب سے خلا میں بھیجے جانے والے اس سیٹلائٹ کی بدولت پاکستان اب اپنے قدرتی وسائل، آبی ذخائر اور زمین کے استعمال کی موثر نگرانی کرے گا۔
مقامی سطح پر پاکستان کے تیار کردہ سپارکو کے اس سیٹلائٹ نہ صرف قدرتی آفات سے نمٹنے، زرعی نگرانی اور شہری منصوبہ بندی میں مدد ملے گی بلکہ یہ سیٹلائٹ سیلاب، زلزلے، لینڈ سلائیڈنگ اور دیگر قدرتی آفات کے لئے بروقت وارننگ فراہم کرنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھنے کے ساتھ ساتھ جنگلات کی کٹائی، گلیشیئر کے پگھلاؤ اور ماحولیاتی بگاڑ کی نگرانی حقیقی وقت میں کرے گا۔
اسی طرح سیٹلائٹ سے فصلوں کے تجربات کے ذریعے زرعی منصوبہ بندی کو بہتر اور خوراک کی سیکورٹی کو بھی مضبوط بنانے میں مدد ملے گی۔
سپارکو کے تیار کردہ اس سیٹلائٹ کا بنیادی مقصد ہی قدرتی آفات سے بروقت خبردار کرنا، زراعت، ماحول اور شہری منصوبہ بندی کو بہتر بنانا ہے۔ پاکستان کا یہ نیا مشن سپارکو ویژن 2047 کے تحت پاکستان کو ایک خود انحصار خلائی طاقت بنانے کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ مشن میں ماحولیاتی تحفظ، قدرتی وسائل کی نگرانی، اور موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کی جدید صلاحیت شامل ہے۔
سیٹلائٹ، CPEC منصوبوں کی نگرانی اور ٹرانسپورٹ نیٹ ورک کی نقشہ سازی میں مؤثر کردار ادا کرے گا۔ اسی طرح حاصل شدہ ڈیٹا شہری اور علاقائی منصوبہ بندی میں، خاص طور پر تیزی سے ترقی پذیر علاقوں میں، مدد فراہم کرے گا۔
پاکستان کا پہلا قمری روور 2028 میں چین کے Chang’E-8 مشن کے تحت چاند کے جنوبی قطب کی طرف روانہ کیا جائے گا۔
سپارکو کا یہ نیا سیٹلائٹ قدرتی وسائل، آبی ذخائر اور زمین کے استعمال کی مؤثر نگرانی کرے گا۔
یہ مشن سپارکو ویژن 2047 کے مطابق پاکستان کو ایک خود انحصار اور علاقائی خلائی طاقت بنانے کی جانب اہم قدم ہے۔
سیٹلائٹ ماحولیاتی اور ایколوجیکل تبدیلیوں کی نگرانی کے ذریعے موسمیاتی مزاحمت کو مضبوط کرے گا۔
بلاشبہ یہ خلائی کامیابی پاکستان کے سائنسی تعاون، پائیدار ترقی اور ٹیکنالوجی میں خود کفالت کے عزم کی نمائندگی کرتا ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان رواں سال مئی میں چین کے خلائی اسٹیشن ٹریننگ پروگرام میں شامل ہونے والا پہلا غیر ملکی ملک تھا جس کے دو ہوا بازوں کو چین کے انسان بردار خلائی پروگرام کی خصوصی تربیت دی گئی۔ اور اس سے ایک اور بڑے اعزاز کی بات یہ ہے کہ خلائی تربیت حاصل کرنے والے سب دو پاکستانی خلابازوں میں سے ایک کو مستقبلِ قریب میں چین کے تیانگونگ اسپیس اسٹیشن پر سائنسی لوڈ اسپیشلسٹ کے طور پر مشن کا حصہ بنائے جانے کے قوی اور روشن امکانات ہیں جو بلاشبہ ملک و قوم کے لئے بڑے فخر اور اعزاز کی بات ہوگی۔
ماہرین کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ ان تمام اقدامات سے عیاں ہوتا ہے کہ پاکستان خلائی ٹیکنالوجی کو قومی ترقی اور قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے بروئے کار لا رہا ہے۔ بلاشبہ موسمیاتی تبدیلیوں اور بڑھتے ہوئے قدرتی آفات کے خطرات کے پیش نظر پاکستان کی سمت مدبر قیادت کی بدولت درست سمت میں کامیابی سے رواں دواں ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں سپارکو نے اعلان کیا تھا کہ اس کا تیار کردہ روور 2028 میں چین کے چانگ ای 8 مشن کے ساتھ چاند کے جنوبی قطب پر بھیجا جائے گا۔ اس اقدام کو پاکستان کی خلائی تاریخ میں ایک اہم پیشرفت قرار دیا گیا ہے۔
اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر حمزہ خان نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں، اور یورپ سے متعلق عصری مسائل پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور لندن، برطانیہ میں مقیم ہے۔
View all posts