Nigah

پاک ازبکستان تجارت،ترقی و خوشحالی کے مشترکہ عزم کا اظہار

nigah pak uzbakistan

پاکستان اور ازبکستان نے دفاع، ٹیکنالوجی، تیکنیکی تربیت، میڈیا اور نوجوانوں کو با اختیار بنانے کے شعبوں میں دو طرفہ تعاون کو مضبوط بنانے کے لئے سولہ معاہدوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخط کئے ہیں۔ وزیراعظم پاکستان محمد شہباز شریف اور ازبک صدر شکررت مرزایوف کی وفود کی سطح پر تفصیلی بات چیت ہوئی جس کے بعد دونوں رہنماؤں نے معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں پر دستخطی کی حصوصی تقریبات میں شرکت بھی کی۔

پاکستان کے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور ازبک وزیر خارجہ بختیار سیدوف نے سفارتی پاسپورٹ رکھنے والوں کے لئے ویزا فری سفر، ملٹری انٹیلیجنس، داخلہ امور، پیشہ ورانہ اور تیکنیکی تربیت اور سفارت کاروں کی تربیت کے شعبوں میں معاہدوں کی دستاویزات کا تبادلہ کیا گیا۔

سائنسی تحقیق اور دیگر شعبوں میں تعاون کے لئے فریقین کے درمیان ایک اور بین الحکومتی معاہدے پر بھی دستخط کئے گئے۔

پاکستان اور ازبکستان نے ترقی و خوشحالی کے مشترکہ عزم کا اظہار کرتے ہوئے مستقل قریب میں دو طرفہ تجارت کے حجم کو موجودہ 400 ملین ڈالر سے دو ارب ڈالر تک بڑھانے، علاقائی رابطے کے فروغ کے لئے ٹرانس افغان ریلوے منصوبے سمیت مواصلات، تجارت، معدنیات، سیاحت، زراعت، سائنس و ٹیکنالوجی سمیت دیگر شعبوں میں تعاون کو فروغ دینے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

nigah pak uzb

قارئین کرام! پاکستان اور وسط ایشیائی ملکوں کے درمیان حالیہ عرصے میں قربتوں میں اضافہ ہوا ہے جسے وژن وسط ایشیاء پالیسی کا نام دیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان وسط ایشیاء کے ساتھ سیاسی، اقتصادی اور توانائی میں روابط بڑھانے کے لئے پر عزم ہے۔

کاسا 1000 توانائی منصوبہ وژن وسط ایشیا کا ایک اہم جزو قرار دیا جا رہا ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی سفارت کاری کا پہلا محور اب معاشی اہداف کا حصول ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وسطی ایشیاء اسلام آباد کے سفارتی نقشے پر اہمیت اختیار کر گیا ہے جس کی بنیادی وجہ پاکستان کی وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ معاشی مفادات وابستہ ہیں جو توانائی کے حصول کی صورت میں ہیں جن میں ٹاپی اور کاسا 1000 حصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔

ٹاپی ترکمانستان، افغانستان، پاکستان اور بھارت گیس پائپ لائن منصوبہ ہے جبکہ کاسا 1000 میں کرغستان اور تاجکستان سے افغانستان اور پاکستان کو 1300 میگاواٹ بجلی فراہم کی جا سکے گی اور یہ دونوں منصوبے اس وقت زیر تکمیل ہیں۔

قارئین محترم! یورپی منڈی تک زمینی راستے کا حصول اسلام آباد کی دیرینہ خواہش ہے۔ توانائی کی حالیہ شدید قلت اور افغانستان کی صورتحال نے وسطی ایشیا کو اسلام آباد کے لئے مزید اہم بنا دیا ہے۔

اسی طرح چین اور روس کے بھی وسطی ایشیا میں مفادات ہیں اور وہ اس خطے کے ممالک کو شامل کرکے شنگھائی تعاون آرگنائزیشن اور برکس کو توسیع دینا چاہتے ہیں ایسے وقت میں جب امریکہ اور مغربی ممالک افغانستان سے انخلا کے بعد پاکستان کو تنہا چھوڑ گئے ہیں۔

اسلام آباد کے لئے بھارت اور افغانستان کے تناظر میں وسطی ایشیا بہت اہم ہو جاتا ہے۔

جغرافیائی لحاظ سے پاکستان وسطی ایشیا ریاستوں کے لئے سمندر تک اقتصادی راہداری کا قدرتی راستہ فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ اس کے تاریخی، ثقافتی اور تجارتی تعلقات بحال ہوں۔ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ قریبی تعلقات کی ایک وجہ افغانستان بھی ہے تاکہ خطے کے ممالک افغانستان کے حوالے سے مشترکہ حکمت عملی اپنا سکیں کیونکہ افغانستان کی سرزمین عالمی دہشت گردوں کی آماجگاہ بنتی جا رہی ہے جو پاکستان اور وسط ایشیائی ممالک کے لئے مشترکہ خطرہ ہیں۔

افغانستان کو استحکام کی طرف لے جانے کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان اور وسط ایشیائی ممالک انٹیلیجنس شیئرنگ کے ساتھ ساتھ مشترکہ حکمت عملی اپنائیں۔

یہاں یہ امر بھی دلچسپی سے خالی نہیں کہ وسط ایشیائی ممالک کی سمندر تک رسائی نہیں ہے جس کی وجہ سے ان کا جھکاؤ پاکستان کی طرف ہے اور پاکستان کی بھی یہ خواہش ہے کہ ان دوست ممالک کو کراچی اور گوادر کی بندرگاہ سے منسلک کرے۔ پاکستان نے ان دوست ممالک کو ٹرانزٹ روٹ کی سہولت کی پیشکش کر رکھی ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ وہ وسط ایشیائی ممالک سے اپنی توانائی کی ضروریات کو پورا کرے۔

پاکستان کے وسط ایشیائی ممالک سے گہرے تاریخی، ثقافتی اور سفارتی تعلقات ہیں۔ افغانستان سے امریکی انخلاء کے بعد ان تعلقات میں مزید گرم جوشی اور استحکام آیا ہے۔

یاد رہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کی طرز پر پاکستان ایک اور راہداری کے منصوبے پر غور کر رہا ہے جو اسے وسط ایشیائی ممالک تک رسائی دے گا۔ یہ راہداری منصوبہ خطے میں تجارت کے فروغ میں اہم کردار ادا کرے گا۔

پاکستان صنعتی ترقی کے لئے بلاشبہ تکنیکی معاونت لے سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ روسی ساختہ طیاروں کی ٹیکنالوجی کے حصول میں بھی پیشرفت ہو سکتی ہے۔

افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی دونوں ممالک کے لئے تشویش کا باعث ہیں اور دونوں ممالک مشترکہ حکمت عملی کے ذریعے طالبان پر دباؤ بڑھا سکتے ہیں کہ وہ خطے میں امن قائم کرتے ہوئے دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کرائیں۔

اس سلسلے میں پاکستان کو بھی چاہئے کہ وہ ازبکستان کو جوہری توانائی کے حوالے سے تعاون فراہم کرے کیونکہ وہاں سے بڑی تعداد میں یورینیم خام صورت میں بیرونی دنیا کو برآمد ہو سکتا ہے۔

nigah ukbakistan pakistan

ازبکستان اور آذربائجان کو دفاعی خطرات کا ادراک ہے جس سے نمٹنے کے لئے تینوں ممالک کے درمیان مضبوط عسکری تعاون موجود ہے۔ آذربائجان کا جے ایف 17 تھنڈر کے حصول کے لئے پاکستان کے ساتھ معاہدہ پہلے سے ہی موجود ہے۔

پاکستان اور ازبکستان دونوں ممالک اقوام متحدہ، اسلامی تعاون تنظیم، اکنامک کارپوریشن اور شنگھائی تعاون تنظیم جیسے اہم علاقائی فورمز کے رکن ممالک بھی ہیں۔

دونوں ممالک کے درمیان طے پانے والے معاہدوں اور مفاہمتی یادداشتوں کے ثمرات مستقبل قریب میں ظاہر ہونا شروع ہو جائیں گے۔

آج اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ وسط ایشیاء صدیوں سے مشرق و مغرب کے درمیان تجارت کا ایک ذریعہ بنا رہا ہے۔ یہ تہذیبوں کے درمیان ثقافتی روابط کا مرکز بھی رہا ہے۔

آج وسط ایشیائی ممالک امید اور مواقع کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ یہ تمام ممالک مشترکہ نقطہ نظر کو پروان چڑھانا چاہتے ہیں۔

یاد رہے کہ اسلام آباد تا تاشقند براہ راست پروازیں بھی رواں سال 14 جون سے شروع ہو چکی ہیں اور دونوں ممالک ترجیحی تجارتی معاہدے کی توسیع، بینک ادائیگیوں کی سہولت اور کسٹمز نظام کی بہتری پر کام کر رہے ہیں۔ اسی طرح یو اے پی ریلوے منصوبہ علاقائی روابط اور اقتصادی انضمام کو فروغ دینے میں بھی بنیادی کردار ادا کرے گا۔


اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر اکرام احمد

    اکرام احمد یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز سے بین الاقوامی تعلقات میں گریجویٹ ہیں۔ باتھ یونیورسٹی میں، جہاں ان کی تحقیق تنازعات کے حل، عالمی حکمرانی، بین الاقوامی سلامتی پر مرکوز ہے۔ ایک مضبوط تعلیمی پس منظر اور عالمی امور میں گہری دلچسپی کے ساتھ، اکرام نے مختلف تعلیمی فورمز اور پالیسی مباحثوں میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ان کا کام بین الاقوامی تعلقات کی حرکیات اور عصری جغرافیائی سیاسی مسائل پر ان کے اثرات کو سمجھنے کے لیے گہری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔