آج سے ٹھیک 78 سال قبل قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت اور شاعر مشرق علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر کے طور پر پاکستان معرض وجود میں آیا۔ یہ دن صرف ایک تاریخی سنگ میل نہیں بلکہ ایک عظیم جدو جہد، قربانیوں اور لازوال جذبے کی یادگار ہے۔ یہ وطن محض ایک خطہ زمین نہیں بلکہ ایک نظریے کا مظہر ہے، ایک ایسی سر زمین جہاں مسلمان اپنے عقیدے، ثقافت اور اقدار کے مطابق زندگی گزار سکیں۔
دو قومی نظریہ پر قائم آزاد، خود مختار، مستحکم اور خوشحال پاکستان الحمدللہ 78 سال کا ہو چکا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کٹھن ترین راستوں سے ہوتے ہوئے پاکستان درست منزل کی طرف اپنے سفر کا آغاز کر چکا ہے۔
آج بلاشبہ ملک کی مدبر عسکری و سول قیادت کے درست اور بروقت فیصلوں سے پاکستان نے اپنی دفاعی خود مختاری کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ محفوظ معاشی مستقبل کی سمت کا بھی تعین کر لیا ہے۔ یوم پاکستان اب محض یوم آزادی نہیں بلکہ ایک نظریہ کی کامیابی کا سنگ میل ہے۔
قارئین محترم! ماضی قریب پر نظر دوڑائی جائے تو معلوم ہو گا کہ وطن عزیز نے مختلف سیاسی اتار چڑھاؤ دیکھے، معاشی اور عالمی بحرانوں کا سامنا کیا، مگر پاکستانی عوام کے حوصلے پست نہیں بلکہ بلند رہے اور آج قوم معاشی احیاء اور معرکہ حق میں فتح کے تناظر میں دفاعی خود مختاری کا جشن بھی منا رہی ہے۔
حالیہ قومی انتخابات کے فوری بعد وزیراعظم شہباز شریف اور عسکری قیادت نے سیاست سے قطع نظر پاکستان کی معیشت کی بحالی اور ترقی کے لئے جو ٹھوس اقدامات اٹھائے، اس کے اثرات رواں سال ہی میں سامنے آنا شروع ہو چکے ہیں۔
رواں برس سپیشل انوسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (SIFC) نے پاکستان کا امیج بہتر بنانے کے لیے تجارتی سفارت کاری پر خصوصی طور پر فوکس کیا اور کئی ممالک کے ساتھ نئے تجارتی معاہدے کیے گئے جو پاکستان کو ایک بڑی برآمدی معیشت بنانے کی کاوش ہے۔ چنانچہ پاکستان کی مستحکم ہوتی معیشت کو دیکھ کر بھارت نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کی آڑ میں پاکستان پر حملہ کیا تاکہ پاکستان کی ترقی کو روکا جا سکے، تاہم اللہ تعالیٰ کے کرم سے بھارت کو نہ صرف منہ کھانی پڑی بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کی قدر و منزلت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور بھارت عالمی تنہائی کا شکار ہو گیا۔
SIFC سول اور عسکری قیادت کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم ہے جو سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے مختلف محکموں میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے اور سرمایہ کاری میں پیچیدہ بیوروکریٹک رکاوٹوں کو کم کر کے سرمایہ کاروں کو آسانی فراہم کرتا ہے۔ اس ادارے کی بدولت ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوا ہے۔ SIFC اور CPEC فیز ٹو کے تحت پاکستان جس معاشی ترقی کی طرف گامزن ہے اس کی بدولت جی ڈی پی کی شرح نمو اس وقت 2.7 فیصد ہے جبکہ جی ڈی پی گروتھ ریٹ 3.8 فیصد متوقع ہے۔ یہ ایک مثبت معاشی موڑ کی علامت ہے۔ برآمدات 32.1 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکی ہیں، ترسیلات زر 38.3 ارب ڈالر سے زائد ہو چکی ہیں جبکہ معدنیات، آئی ٹی اور توانائی کے شعبوں میں غیر ملکی سرمایہ کاروں نے سرمایہ کاری کے وعدے کیے ہیں۔
CPEC فیز ٹو نے پاکستان کی معیشت کو نئی جہت دی ہے۔ علاقائی روابط کے ساتھ نئے اکنامک زونز میں صنعتوں کے قیام سے روزگار کے ہزاروں مواقع پیدا ہوں گے اور سینٹرل ایشیا تک پاکستان کو ایک علاقائی تجارتی مرکز بنانے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ CPEC فیز ٹو پاکستان کے مستحکم معاشی مستقبل کی ضمانت ہے۔
حکومتی اقدامات کی بدولت افراط زر ماضی کے مقابلے میں کم ہوا ہے۔ مالیاتی اصلاحات، صنعتی بحالی اور توانائی کے منصوبے ملکی معیشت کے استحکام میں ریڑھ کی ہڈی ہیں۔
پاکستان کی معیشت کا بڑا انحصار زراعت کے شعبے سے وابستہ ہے۔ چنانچہ زرعی اصلاحات سے پیداوار میں اضافہ اور کسانوں کی آمدن بڑھنے کے روشن امکانات ہیں۔ زراعت کی بحالی، صنعتی پیداوار میں اضافہ اور خدمات کے شعبے میں وسعت بھی مستحکم معیشت کی ایک جھلک ہے۔ ترسیلات زر میں اضافہ زر مبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے علاوہ لاکھوں خاندانوں کے روزگار کی ضمانت ہیں۔
بجلی کے نظام میں قابل تجدید توانائی کا حصہ 12 فیصد تک پہنچ گیا جس سے توانائی کی لاگت میں کمی آئی ہے۔ توانائی اور معدنی شعبہ میں قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک نے سرمایہ کاری میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ اسی طرح دیکھا جائے تو آئی ٹی برآمدات 3.5 ارب ڈالر سے زائد ہیں۔ مضبوط معیشت کی بدولت مہنگائی میں نمایاں کمی دیکھنے میں آرہی ہے۔
پاکستان کی آبادی کا تقریباً 60 فیصد حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جو وطن عزیز کے لیے خوش آئند ہے۔ خواتین کا بھی کاروباری شعبے میں نمایاں کردار ہے۔ اسٹارٹ اپس پروگرام ملکی شرح نمو کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہو رہے ہیں۔
پاکستان کا 78 واں یوم آزادی اس عہد کی تجدید کرتا ہے کہ دفاعی، معاشی خود مختاری، یکساں جامع ترقی اور سیاسی استحکام کے حصول کے لئے پوری قوم کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔
اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
اکرام احمد یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز سے بین الاقوامی تعلقات میں گریجویٹ ہیں۔ باتھ یونیورسٹی میں، جہاں ان کی تحقیق تنازعات کے حل، عالمی حکمرانی، بین الاقوامی سلامتی پر مرکوز ہے۔ ایک مضبوط تعلیمی پس منظر اور عالمی امور میں گہری دلچسپی کے ساتھ، اکرام نے مختلف تعلیمی فورمز اور پالیسی مباحثوں میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ان کا کام بین الاقوامی تعلقات کی حرکیات اور عصری جغرافیائی سیاسی مسائل پر ان کے اثرات کو سمجھنے کے لیے گہری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔
View all posts