Nigah

سی پیک خطہ کی ترقی کا ضامن

nigah cpec (2)

بدلتے ہوئے جغرافیائی اور معاشی حالات نے علاقائی تعاون اور اقتصادی انضمام کی اہمیت پہلے سے زیادہ بڑھا دی ہے۔ اسی تناظر میں پاکستان اور چین نے اپنے مضبوط اور گہرے تعلقات کے پس منظر میں معاشی شراکت داری کو نئے وژن کے تحت مستحکم کیا۔ تقریباً پندرہ برس قبل چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کی داغ بیل ڈالی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں نے خطے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں کو بھی سی پیک کا حصہ بننے کی پیشکش کی، جن میں افغانستان، وسطی ایشیائی ریاستیں، ایران، ترکیہ، بنگلہ دیش اور دیگر شامل ہیں۔ چین بلا شبہ اس خطے کی سپر پاور ہے اور پاکستان کے ساتھ اس کے دیرینہ اور برادرانہ تعلقات کسی سے پوشیدہ نہیں۔ جغرافیائی محل وقوع اور مستحکم ہوتی معیشت سے پاکستان کو ایک منفرد مقام حاصل ہے اور اس کے بغیر سی پیک یا کوئی دوسرا منصوبہ احسن طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچانا ممکن نہیں۔

پاکستان اور چین کے حکام وقتاً فوقتاً سی پیک کے اشتراک اور معاشی تعاون کے نئے امکانات کا جائزہ لیتے رہتے ہیں۔ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر ترقی و منصوبہ بندی پروفیسر احسن اقبال اور چین کے ڈیویلپمنٹ ریسرچ سینٹر (ڈی آر سی) اور سینٹر فار انٹرنیشنل نالج آن ڈیویلپمنٹ (سی آئی کے ڈی) کے صدر لو ہاؤ کے مابین اہم ملاقات ہوئی۔ اس موقع پر سی پیک نے پاکستان اور چین کے تعلقات کو محض معاشی نہیں بلکہ سماجی شراکت داری میں بدل دیا ہے۔ مذاکرات میں دو طرفہ تحقیقی منصوبے، ماہرین کا تبادلہ اور چین کی منڈیوں تک پاکستان کی رسائی کو وسعت دینے جیسے موضوعات پر اتفاق ہوا۔

احسن اقبال نے سی پیک کو دو طرفہ تعلقات کی سماجی و اقتصادی بنیاد قرار دیا اور خواہش ظاہر کی کہ پاکستان چین کے اصلاحاتی ماڈل سے سیکھ کر سائنسی بنیادوں پر منصوبہ بندی کرنا چاہتا ہے۔ اُڑان پاکستان پروگرام کے تحت معیشت میں استحکام کی بدولت شرح سود 23 فیصد سے کم ہو کر 11 فیصد پر آ گئی ہے جبکہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج نے 149,000 پوائنٹس کی ریکارڈ سطح عبور کر لی ہے۔ سیاسی عدم استحکام اور پالیسی میں عدم تسلسل کو ماضی کی رکاوٹوں کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے دونوں فریقین نے 2035 تک ایک کھرب ڈالرز (1000 بلین) کی معیشت بننے کے پاکستان کے ہدف کے حصول کے لئے برآمدات سے چلنے والی ترقیاتی حکمت عملی پر طویل المدتی شراکت داری پر اتفاق کیا۔

nigah pak-china cpex

بد قسمتی سے ماضی میں پاکستان کی معاشی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی عدم استحکام اور پالیسیوں میں تسلسل نہ ہونا رہا ہے۔ تاہم موجودہ سیاسی و عسکری قیادت پاکستان کی معیشت کے استحکام کے لیے یکسو ہو کر کام کر رہی ہے۔ ایک مخصوص سیاسی جماعت کی انتشاری سیاست کا جواب پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کے سفر سے دیا جا رہا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ جماعت اور اس کی قیادت ایکسپوز ہو چکی ہے اور عوام کی اکثریت حکومت کی معاشی پالیسیوں پر اعتماد کا اظہار کر رہی ہے۔

چین نے مرحلہ وار اصلاحات کے ذریعے ترقی کی منازل حاصل کیں، بنیادی اقتصادی ڈھانچے کو وسعت اور مضبوط کیا اور اس کے بعد ایکسپورٹ پر مبنی ترقی کو رول ماڈل بنایا۔ اسی حکمت عملی کے ذریعے پاکستان بھی اپنی معاشی ترقی کو پائیدار بنا سکتا ہے۔ چین نے چار دہائیوں میں مربوط منصوبہ بندی، شفاف حکمت عملی اور اداروں کی مضبوطی کی بدولت دو کھرب ڈالر سے زائد کی درامدی منڈی قائم کی۔ پاکستان اور چین کی دوستی اور کاروباری شراکت طویل مدتی ویژن پر مبنی ہے۔

اگر پاکستان چین کی ترقی کو مشعل راہ بنائے تو پاکستان کی ترقی اور خوشحالی کی راہ سے تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں گی۔

ملاقات میں پاکستان کی برآمدات پر مبنی ترقیاتی حکمت عملی پر اعتماد کا اظہار کیا گیا۔ دونوں ملکوں کی شراکت داری، ادارہ جاتی جدیدیت اور طویل مدتی ویژن کی بنیاد فراہم کرتی ہے۔

سی پیک صرف معاشی تعاون تک محدود نہیں بلکہ سماجی شراکت داری اور خطے کی ترقی کا ضامن بن چکا ہے۔ پاکستان نے اگر اصلاحاتی پالیسیوں کا تسلسل برقرار رکھا تو وطن عزیز نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی معیشت کے طور پر بھی ابھر سکتا ہے۔

اعلان دستبرداری: اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر حمزہ خان

    ڈاکٹر حمزہ خان نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں، اور یورپ سے متعلق عصری مسائل پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور لندن، برطانیہ میں مقیم ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔