Nigah

مالی خود مختاری اور اصلاحات کی جانب اقدامات

nigah مالی خود مختاری

دنیا کی معیشت میں آج وہی ممالک کامیاب اور مستحکم سمجھے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی پالیسیوں کو امداد اور قرضوں سے آزاد کر کے خود انحصاری کی راہ اپنائی۔ پاکستان گزشتہ کئی دہائیوں سے بیرونی امداد اور قرضوں پر انحصار کرتا آ رہا ہے جس کے نتیجے میں مالیاتی ڈھانچہ کمزور ہوا، ترقی کے منصوبے رُکے اور خودمختاری پر بھی سوالات اٹھنے لگے۔ جون 2025 تک اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق پاکستان کا بیرونی قرضہ 131 ارب ڈالر تک جا پہنچا، جو ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح ہے۔ یہ بوجھ صرف قرض تک محدود نہیں بلکہ بجٹ خسارہ بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔

مالی سال 2024-25 میں پاکستان کا بجٹ خسارہ جی ڈی پی کے اوسطاً 7 فیصد کے قریب رہا جو خطے کے دوسرے ممالک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ مزید یہ کہ ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح صرف 10.6 فیصد ہے جو جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔ اس کے برعکس سری لنکا اور بھارت جیسے ممالک میں یہی شرح 15 سے 18 فیصد کے درمیان ہے۔ پاکستان نے 2024 میں آئی ایم ایف کے 7.4 ارب ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج پر انحصار کیا جبکہ چین سے 29 ارب ڈالر، سعودی عرب اور یو اے ای سے دوطرفہ قرضے لے کر معیشت کو سہارا دیا۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ 2024-25 کے بجٹ کا تقریباً 45 فیصد یعنی 18 ارب ڈالر صرف قرضوں اور سود کی ادائیگی میں استعمال ہوا۔ یہ وہ رقم ہے جو تعلیم، صحت، انفراسٹرکچر اور روزگار کے منصوبوں پر لگنی چاہیے تھی۔
nigah tax growth

پاکستان کے لیے اس امدادی دائرے سے نکلنے کی حکمت عملی تین بنیادی ستونوں پر کھڑی کی جا سکتی ہے۔

پہلا ستون ٹیکس اصلاحات کا ہے۔ چونکہ پاکستان میں ٹیکس نیٹ محدود اور غیر مؤثر ہے۔ 2024 میں صرف 58 لاکھ افراد ٹیکس دہندگان کے طور پر رجسٹرڈ تھے۔ حکومت نے ہدف مقرر کیا ہے کہ 2027 تک یہ تعداد ایک کروڑ تک پہنچائی جائے اور 2030 تک ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 15 فیصد تک لے جائی جائے۔ اس کے لیے نہ صرف ایف بی آر کو جدید ڈیجیٹل ٹیکنالوجی فراہم کرنا ہوگی بلکہ ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم کو مؤثر انداز میں نافذ کرنا ہوگا۔ یہ اقدامات محصولات میں 25 فیصد اضافے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

دوسرا ستون مقامی وسائل کا زیادہ سے زیادہ استعمال ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی طاقت سمندر پار پاکستانی ہیں۔ مالی سال 2024-25 میں ترسیلات زر 32 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں جو گزشتہ سال سے 7 فیصد زیادہ ہیں۔ اگر حکومت بینکنگ نظام کو آسان اور کم لاگت بنائے تو ترسیلات زر کو 40 ارب ڈالر تک بڑھایا جا سکتا ہے۔ یہ سرمایہ براہِ راست معاشی سرگرمیوں میں استعمال ہو سکتا ہے اور ترقیاتی منصوبوں کو سہارا دے سکتا ہے۔

تیسرا ستون اخراجات کا منصوبہ بند ہونا ہے۔ ملکی معیشت کا ایک بڑا حصہ سبسڈی پر ضائع ہوتا ہے۔ صرف توانائی سبسڈی ہی میں 3.5 ارب ڈالر سالانہ خرچ ہوتے ہیں۔ اگر ان سبسڈیز میں کمی کر کے فنڈز کو سی پیک کے انفراسٹرکچر منصوبوں، پن بجلی اور اعلیٰ اثرات والے ترقیاتی پروگراموں پر لگایا جائے تو نہ صرف توانائی کے بحران میں کمی آئے گی بلکہ طویل المدتی اقتصادی ترقی بھی ممکن ہو گی۔

پاکستان کے سامنے خود انحصاری کی راہ میں کئی بڑی رکاوٹیں ہیں۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق 2024 میں پاکستان میں بدعنوانی سے سالانہ تقریباً 2.5 ارب ڈالر ضائع ہوئے ہیں۔ یہ رقم اگر شفافیت کے ذریعے تعلیم، صحت اور انفراسٹرکچر پر لگائی جائے تو ملک کے حالات بدل سکتے ہیں۔

اسی طرح یونیسکو کے مطابق پاکستان میں اب بھی 2 کروڑ 30 لاکھ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ جب تک تعلیمی خلا پر نہیں کیا جائے گا، معیشت کو ہنر مند افرادی قوت نہیں مل سکتی۔

ٹیکس وصولی
ٹیکس وصولی کے نظام میں ڈیجیٹل سہولیات کی کمی سے ٹیکس چوری بڑھتی ہے۔ اگر جدید ڈیجیٹل ٹیکس نظام اپنایا جائے تو 10 ارب ڈالر تک اضافی محصولات حاصل ہو سکتے ہیں۔

پالیسی اصلاحات اور متوقع نتائج 2030 تک
حکومت نے ہدف رکھا ہے کہ قرض کا جی ڈی پی تناسب 70 فیصد سے کم کر کے 60 فیصد تک لایا جائے۔ اس کے ساتھ تعلیم اور صحت کے لیے زیادہ فنڈز مختص کیے جائیں گے تاکہ انسانی وسائل کی ترقی ممکن ہو۔ سرکاری اداروں کی نجکاری سے نہ صرف کارکردگی بہتر ہوگی بلکہ توانائی کے شعبے میں موجود 15 ارب ڈالر کے گردشی قرض میں کمی آئے گی۔

اینٹی کرپشن اقدامات اور ایف بی آر کے ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم سے شفافیت بڑھے گی اور محصولات میں کم از کم 25 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔ توانائی سبسڈی کی بچت سے 2025 میں تعلیم کے بجٹ میں 20 فیصد اضافہ کیا جاسکتا ہے تاکہ تعلیم سے محروم بچوں کی تعداد میں کمی لائی جا سکے۔

پاکستان اگر اپنے قرضوں پر انحصار کم کرے اور سی پیک منصوبوں پر زیادہ توجہ دے تو یہ پورے خطے کے لیے ایک خودمختار معاشی مرکز بن سکتا ہے۔ سی پیک نہ صرف توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبے فراہم کر رہا ہے بلکہ وسطی ایشیا، چین اور مشرق وسطیٰ تک پاکستان کو تجارتی مرکز میں بدل سکتا ہے۔

خود انحصاری کی پالیسی صرف حکومتی اقدامات تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ عوامی شمولیت بھی ضروری ہے۔ اگر 40 فیصد غریب آبادی کو شمولیتی مالی پالیسیوں کے ذریعے ترقی کے ثمرات دیے جائیں تو معاشی خودمختاری کے ساتھ سماجی استحکام بھی ممکن ہو گا۔

پاکستان 2030 تک 15 فیصد ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح کا ہدف رکھتے ہوئے 32 ارب ڈالر کی ترسیلات زر سے خود انحصار معیشت کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ ٹیکس اصلاحات اور 3.5 ارب ڈالر کی سبسڈی کٹوتی مقامی وسائل کو متحرک کر کے پائیدار ترقی کو ممکن بناتی ہیں۔ وسیع ٹیکس نیٹ اور منظم بجٹ 131 ارب ڈالر کے قرض کو معاشی مواقع میں بدل سکتے ہیں۔ بدعنوانی سے ضائع ہونے والے 2.5 ارب ڈالر کو تعلیم و انفراسٹرکچر پر لگا کر خود کفالت کی راہ ہموار کی جا سکتی ہے۔ ڈیجیٹل ٹیکس نظام اور منصوبہ بند اخراجات 10 ارب ڈالر اضافی محصولات فراہم کر سکتے ہیں۔ اینٹی کرپشن اقدامات اور ایف بی آر کا ٹریک اینڈ ٹریس سسٹم شفافیت اور محصولات میں 25 فیصد اضافہ کر رہا ہے۔ سبسڈی بچت سے 2025 میں تعلیم کا بجٹ 20 فیصد بڑھا کر 2 کروڑ 30 لاکھ بچوں کے تعلیمی خلا کو پُر کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ سرکاری اداروں کی نجکاری اور 15 ارب ڈالر کے گردشی قرض میں کمی توانائی شعبے پر بوجھ کم کرے گی۔

آئی ایم ایف اور 27 ارب ڈالر کے قرضوں پر انحصار کم کر کے پاکستان کی خودمختاری مضبوط بنائی جا رہی ہے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر حسین جان

    حسین جان کے علمی مفادات بین الاقوامی سلامتی، جغرافیائی سیاسی حرکیات، اور تنازعات کے حل میں ہیں، خاص طور پر یورپ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے۔ انہوں نے عالمی تزویراتی امور سے متعلق مختلف تحقیقی فورمز اور علمی مباحثوں میں حصہ ڈالا ہے، اور ان کا کام اکثر پالیسی، دفاعی حکمت عملی اور علاقائی استحکام کو تلاش کرتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔