Nigah

بھارت کا جمہوری اور سیکولر کا مکروہ بیانیہ بے نقاب

کرہ ارض پر بھارت نام کا ملک جو بڑی جمہوریت، انسانی حقوق کا علمبردار اور سیکولر ہونے کا دعویدار ہے لیکن حقیقت میں یہاں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں، سکھوں، عیسائیوں، نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ روا رکھا جانے والا سلوک اور مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و بربریت اس کے بدنما چہرے کو بے نقاب کرنے کے لیے کافی ہے۔ انتہا پسندی اور ریاستی سطح پر دہشتگردوں کی سرپرستی کرنے والے ملک میں نہ جمہوریت ہے نہ ہی اقلیتوں کو تحفظ حاصل ہے۔

اس کی تازہ مثال بھارتی ریاست اتر پردیش کے ضلع سنبھل کی شاہی جامع مسجد تنازعہ کے بارے میں بھارتی عدالتی تعصب اور ریاستی جبر ہے۔ نومبر 2024 میں اتر پردیش کی شاہی مسجد کے عدالتی حکم پر کیے گئے سروے کے نتیجے میں تشدد اور جھڑپوں کے دوران پانچ مسلمان شہید ہوئے تھے۔ واقعہ کی انکوائری رپورٹ 28 اگست 2025 کو وزیراعلیٰ یوگی کو پیش کی گئی جس میں بے بنیاد دعویٰ کیا گیا کہ مسجد سے ہری ہر مندر تھا۔ یہ رپورٹ اس حقیقت کو عیاں کرتی ہے کہ بھارت میں عدلیہ، حکومت، پولیس اور دیگر ریاستی ادارے سازش کے تحت مسلمانوں کی مذہبی و دینی شناخت اور ورثے کو مٹانے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔

بھارتی بیانیہ
یہ وہی بیانیہ ہے جو بھارتی عدالتیں، حکومت اور انتہا پسند تنظیمیں مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے استعمال کررہی ہیں۔

سانحہ سنبھل شاہی مسجد کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ اس سے پہلے اگست 2025 میں فتح پور کے ابونگر میں 200 سالہ پرانے مسلم مقبرے کی بے حرمتی کی گئی جہاں پولیس کی موجودگی میں زعفرانی پرچم لہرایا گیا جو بھارت کے عدالتی و انتظامی ڈھانچے کے زوال اور ہندو انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔ ابو نگر کے مقبرے کی بے حرمتی میں ملوث مجرموں کی گرفتاری تو کجا، انہیں ریاستی ادارے پشت پنہائی کرتے رہے۔

nigah muslim protest
Source: VOA

تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو بھارت میں مساجد پر حملوں اور انہیں شہید کرنے کا سلسلہ 26 دسمبر 1992 سے شروع ہوتا ہے جب ایودھیا میں 1529 میں مغل کمانڈر میر باقی کی تعمیر کردہ بابری مسجد کو بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس کے زیر سایہ انتہا پسند ہندوؤں نے شہید کیا۔ بابری مسجد کی شہادت بی جے پی اور آر ایس ایس کی قیادت برسوں کی منصوبہ بندی کا شاخسانہ تھی۔ اس سانحہ سے پورے بھارت میں فرقہ وارانہ فسادات کے نتیجے میں دو ہزار سے زائد مسلمان شہید ہوئے۔ لبراہن تحقیقاتی کمیشن نے بی جے پی اور آر ایس ایس کو سانحے کا ذمہ دار قرار دیا مگر تین دہائیوں سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود انصاف کے تقاضے پورے نہ ہو سکے جس کی بدولت انتہا پسندوں کو یقین ہو گیا کہ اگر ریاستی سرپرستی حاصل ہو تو مسلمانوں کی کوئی بھی عبادت گاہ محفوظ نہیں رہ سکتی۔

بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہندو انتہا پسندوں کے حوصلے مزید بڑھے اور مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو مندروں میں بدلنے اور ان کی بے حرمتی کا سلسلہ ریاستی نگرانی میں تیز ہو گیا۔ گیانواپی مسجد، اجین، پانی پت، سنبھل اور دیگر مساجد حملوں کا شکار ہیں۔

nigah بابری مسجد

بھارتی عدالتوں نے انصاف کی بجائے خود کو ایک جانبدار آواز میں بدل دیا۔ عدالتی کمیشن کی اکثر رپورٹوں میں مسلمانوں کے دعووں کو مسترد کیا گیا، غیر قانونی انہدام کے ثبوتوں کو نظر انداز کیا گیا جس سے ہندو انتہا پسند بیانیے کو تقویت ملتی ہے۔ اس کے علاوہ نصابی کتب میں صدیوں تک برصغیر پاک و ہند پر حکمرانی کرنے والے مسلمان بادشاہوں، اکابرین، جید علماء اور اولیاء اللہ کے کردار کو حذف کر کے ہندو اساطیر کو مرکزی حیثیت دی جا رہی ہے۔

عالمی ادارے بھارت کے اقلیتوں کے ساتھ سلوک کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں لیکن بھارت اور اس کی عدلیہ اپنے سیاہ کارناموں پر پردہ ڈالنے اور انتہا پسندوں کی سرپرستی کرنے میں مصروف ہے۔ بابری مسجد سے لے کر اب تک مساجد شہید اور مزارات کی بے حرمتی کے واقعات نے بھارتی نام نہاد جمہوریت کو دفن، قانون کو بے بس کر دیا اور اکثریتی فرقے کے لیے انصاف مخصوص ہونے سے اقلیتوں کے وجود کو خطرے میں ڈال دیا۔

عالمی برادری نے فوری طور پر بھارت کے سیاہ بیانیے اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر توجہ نہ دی تو جنوبی ایشیا میں مذہبی شدت پسندی خطے کے امن کو تباہ کر سکتی ہے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر مزمل خان

    مزمل خان سیاست اور بین الاقوامی معاشیات میں گہری دلچسپی کے ساتھ، ان کا تعلیمی کام اس بات کی کھوج کرتا ہے کہ کس طرح بنیادی ڈھانچہ اور جغرافیائی سیاسی حرکیات تجارتی راستوں اور علاقائی تعاون کو متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر جنوبی اور وسطی ایشیا میں۔ موزممل شواہد پر مبنی تحقیق کے ذریعے پالیسی مکالمے اور پائیدار ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے پرجوش ہے اور اس کا مقصد تعلیمی انکوائری اور عملی پالیسی سازی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔