Nigah

بھارت کی 130 ویں آئینی ترمیم جمہوریت یا آمرانہ رجحان؟

nigah بھارت کی 130

بھارت کو دنیا کی بڑی جمہوریت کہا جاتا ہے۔ ایسا ملک جس کی بنیاد وفاقیت، کثیرالجماعتی سیاسی نظام اور آئین پر اصول و ضوابط پر کھڑی ہے۔ تاہم بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ نے 20 اگست 2025 کو 130 ویں آئینی ترمیم لوک سبھا میں پیش کی۔ اس ترمیم کا پیش کرنا بھارت کی سیاست میں بھونچال کا سبب بن گیا۔ اس کے ساتھ ہی بھارت میں جمہوریت کے مستقبل سے متعلق کئی سنجیدہ سوالات پیدا ہوگئے۔ بھارت کی اس آئینی ترمیم کی رو سے وزیر اعظم، وزرائے اعلیٰ یا وزراء کو اسی صورت میں ہٹایا جاسکتا ہے اگر وہ تیس دن تک حراست میں رہیں۔ اور ایسے سنگین الزامات جن کی سزا کم از کم پانچ سال یا اس سے زائد ہو۔ تب ہی انہیں خودکار طریقے ان کے عہدوں سے ہٹایا جا سکتا ہے۔

بظاہر تو ترمیم کی یہ تجویز کا مقصد احتساب کے اصولوں کے مطابق نظر آتی ہے۔ تاہم بھارت کی اپوزیشن جماعتوں نے اس ترمیم کو پولیس ریاست بنانے کی جانب کوشش قرار دیا ہے۔
nigah امیت شاہکی جانب سے یہ ترمیم پیش ہونے کے فورا بعد اپوزیشن کا بھرپور ردعمل دیکھنے میں آیا۔

اس اقدام کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے مختلف سیاسی رہنماؤں نے اسے جمہوریت کا براہ راست قتل قرار دیا۔ اپوزیشن جماعتوں کے رہنماؤں کا موقف ہے کہ ایسے اقدامات مودی سرکار کا سیاسی ہتھکنڈہ ہیں۔ جن کے ذریعے مختلف ریاستوں میں دیگر جماعتوں کی حکومتوں کو کمزور کرنا اور بی جے پی کے تسلط کو مزید مضبوط کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔

ممتا بنرجی کے مطابق یہ جمہوریت کی موت ہے اور سپر ایمرجنسی سے بھی بدتر ہے جس سے عدلیہ کمزور ہوگی۔
اسدالدین اویسی نے اس بل کو غیر آئینی قرار دیا اور کہا کہ یہ بل اختیارات کی تقسیم کے کے خلاف ہے اور بھارت کو پولیس سٹیٹ کی طرف دھکیلتا ہے۔
پریانیکا گاندھی نے کہا کہ اس قسم کا ظالمانہ قانون بغیر سزا کے وزرائے اعلیٰ کی برطرفی کی اجازت دیتا ہے جو جمہوریت کے منافی ہے۔
این کے پریم چندرن (RSP) کا کہنا تھا کہ یہ بل وزرائے اعلیٰ اور وزراء کو نشانہ بناتا ہے۔ وزیر اعظم کو استثنا دیتا ہے اور بی جے پی کے علاوہ دیگر جماعتوں کی حکومتوں کو غیر مستحکم کرنے کیلئے لایا گیا ہے۔
ای ٹی محمد بشیر کہتے ہیں کہ یہ قانون سازی قانونی اصولوں کے خلاف ہے اور بدنیتی پر مبنی ہے۔
گورو گوگوئی کا کہنا ہے کہ یہ بل راہول گاندھی کی ووٹ آدھیکار یاترا مہم سے توجہ ہٹانے کی چال ہے۔

مہوا موئترا کا بیان
اسی طرح مہوا موئترا واضح اور اعلانیہ کہہ رہی ہیں کہ صرف 240 اراکین اسمبلی کے ساتھ بی جے پی، ای ڈی اور سی بی آئی کو ہتھیار بناکر اپوزیشن جماعتوں کی حکومتوں کو گرانے جارہی ہے۔

ابھیشیک سنگھوی نے اس اقدام کو شیطانی چکر قرار دیا ہے۔ ایسا چکر جو انتخابی شکست کے بغیر اپوزیشن کے وزرائے اعلیٰ کو ہٹاتا ہے جبکہ حکمران جماعت کے رہنما محفوظ رہتے ہیں۔

ان بیانات سے یہ واضح ہے کہ اس ترمیم کو بھارت کی تمام اپوزیشن جماعتیں بنیادی جمہوری ڈھانچے اور وفاقی اکائیوں پر کھلم کھلا حملہ سمجھتی ہیں۔ یہ ترمیم عدلیہ کو نظرانداز کرتی ہے اور بغیر مقدمہ یا سزا کے برطرفی کی اجازت دے کر اختیارات کی تقسیم کے اصول کو کمزور کرنے کی کوشش ہے۔ حالانکہ صرف اسمبلی یا عدالت ہی کسی بھی منتخب نمائندے کو ہٹانے کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ تاہم اس ترمیم سے آئین کو یہ بنیادی اصول پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔

کوئی بھی وزیر اعلیٰ یا وزیر جو عوامی رائے اور اسمبلی کے ذریعے منتخب ہوا ہے وہ صرف تیس دن کی حراست کے بعد کسی عدالتی فیصلے میں قصور وار ثابت ہوئے بغیر خودکار طور پر اپنا عہدہ کھو بیٹھے گا۔

یہ صورتحال عدلیہ کے کردار کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ ماہرین قانون کی رائے ہے کہ اس سے آئین کا توازن بری طرح بگڑ جائے گا اور مرکز کے پاس تمام تر طاقت منتقل ہو جائے گی۔
آج سے پچاس سال قبل 1975 میں بھارت میں نافذ ہونے والی ایمرجنسی کو جمہوری تاریخ کا سیاہ باب قرار دیا جاتا ہے۔ تاہم اپوزیشن جماعتیں یہ موقف اپنائے ہوئے ہیں کہ حالیہ ترمیم اس سے بھی بدتر ہے کیونکہ اس میں بظاہر تو جمہوری عمل قائم رہے گا تاہم تمام تر اختیارات مرکز کو دے دئیے جائیں گے۔

ان خدشات سے یہ واضح ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو اس ترمیم کی آڑ میں چھپی ایمرجنسی ہی نظر آ رہی ہے۔
اس بل کے تحت وزیر اعظم کا استثناء متنازعہ ترین شق ہے۔
یعنی اگر وزیر اعظم تیس روز تک حراست میں رہ بھی جائے تو وہ برطرف نہیں ہوسکے گا اور اپنے عہدے پر براجمان رہے گا۔ اپوزیشن کے لیے سب سے بڑا اعتراض یہ غیر مساویانہ شق ہے۔

اس ترمیم کے نفاذ سے اپوزیشن کے وزرائے اعلیٰ اور وزراء کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنا کر اور ان پر من گھڑت الزامات لگا کر انہیں گرفتاری کے ذریعے ہٹایا جا سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں جمہوریت پر عوامی اعتماد ختم ہوجائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ وزیر اعظم کو استثنا دے کر احتساب کو مکمل طور پر یکطرفہ بنا دیا گیا ہے۔

قانونی و سیاسی ماہرین کی رائے ہے کہ اگر یہ ترمیم کا مقصد حقیقی احتساب ہوتا تو وزیر اعظم کیلئے بھی وہی معیار مقرر کیا جاتا۔ تاہم وزیر اعظم کو محفوظ رکھا گیا ہے جو اس عمل کو سیاسی حربہ بناتا ہے۔

یہ تاثر بھی فروغ پا رہا ہے کہ مودی سرکار اپنی پے در پے ناکامیوں، بڑے پیمانے پر کرپشن، بے روزگاری اور مہنگائی سمیت خارجہ پالیسی میں کمزوریوں سے عوام کی توجہ ہٹانا چاہتی ہے۔ اس وقت بھارت بدترین سیاسی، معاشی مسائل اور مذہبی منافرت کا شکار ہوچکا ہے۔ ان حالات میں اگر ترمیم منظور ہوجاتی ہے تو نام نہاد احتساب اصل میں وفاقیت، جمہوریت اور اختیارات کی تقسیم کو بے پناہ نقصان پہنچانے کا سبب بنے گا۔

مجوزہ قانون سے متعلق اپوزیشن کا بھرپور ردعمل اور ملک میں سپر ایمرجنسی کی بازگشت یہ دلیل ہے کہ یہ معاملہ بھارت کی سیاست کو مزید انتشار، بے یقینی اور غیر مستحکم بنا سکتا ہے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر حمزہ خان

    ڈاکٹر حمزہ خان نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں، اور یورپ سے متعلق عصری مسائل پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور لندن، برطانیہ میں مقیم ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔