Nigah

نارملسی منتر کی ناکامی اور عالمی برادری کے لیے سوالات

بھارت کے زیر تسلط مقبوضہ جموں و کشمیر کا خطہ دلفریب وادیوں، صدیوں پرانی ثقافت اور منفرد دستکاریوں (Handicrafts) کی وجہ سے عالمی شہرت رکھتا ہے۔ کشمیری میں ہاتھ سے بنی شالیں، لکڑی کی کندہ کاری، پیپر ماشی قالین اور زعفران جیسی مصنوعات بین الاقوامی منڈی میں منفرد مقام رکھتی ہیں۔ یہ صنعتیں نہ صرف مقبوضہ وادی کے باسیوں کیلئے روزگار کا بنیادی ذریعہ ہیں بلکہ کشمیر کی عالمگیر شناخت کا ایک لازمی جزو بھی ہیں۔

بھارت کے اندرونی حالات، سیاسی مسائل، نام نہاد سکیورٹی اقدامات، مذہبی عدم برداشت اور غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے یہ صنعتیں بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ان اشیاء کی برآمدات میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے اور بھارتی حکومت کی جانب سے نارملسی بحال کرنے کے دعووں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

مقبوضہ کشمیر کے ہینڈی کرافٹ کاروبار ہی نہیں بلکہ ثقافتی ورثہ کی حیثیت بھی رکھتے ہیں۔ کشمیری اس ہنر کو نسلوں سے سنبھالے ہوئے ہیں۔ کشمیری شالیں اور قالین اپنے معیار، نفاست و نزاکت اور خوبصورتی کے باعث دنیا بھر کے خریداروں کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ اسی وجہ سے یہ صنعت مقبوضہ کشمیر کی معیشت میں اہم کردار ادا کر رہی ہے۔

مودی سرکار کی جانب سے 2019 میں آرٹیکل 370 منسوخ کیا گیا جس کے بعد بھارت بدترین سیاسی و سماجی طوفان کی لپیٹ میں رہا۔ اس افراتفری نے کشمیر میں ہینڈی کرافٹ جیسے پرانے اور عظیم ورثے کو بری طرح متاثر کیا۔ آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد مودی سرکار جس طرح نارملسی کا دعویٰ کرتی آرہی ہے، اعداد و شمار کے اس جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کیلئے کافی ہیں۔

nigah Handicrafts

خود حکومتی اعداد و شمار یہ اعتراف کر رہے ہیں کہ کشمیر کے ہینڈی کرافٹس کی برآمدات میں بڑی حد تک کمی ہوگئی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ہینڈی کرافٹ کی برآمدات 2020-21 میں 635 کروڑ روپے تھیں۔ صرف ایک سال میں یعنی 2021-22 میں یہ برآمدات کم ہو کر صرف 563 کروڑ روپے تک آگئیں۔

کشمیری ہنرمندوں کا نقصان
یعنی محض ایک برس میں ہینڈی کرافٹ کی برآمدات میں 72 کروڑ کی کمی ہوئی جس کی وجہ سے کشمیری تاجر اور ہنرمند بری طرح متاثر ہوئے۔ یہ نتیجہ ہے مودی سرکار کے بنائے ہوئے نام نہاد سکیورٹی قوانین اور پالیسیوں کا۔

مودی سرکار مسلسل یہ تاثر دیتی آرہی ہے کہ عوام کی حفاظت کیلئے ہی سخت سکیورٹی اقدامات کئے گئے ہیں لیکن حقیقتاً یہی اقدامات مقبوضہ کشمیر کے تاجروں کیلئے رکاوٹ بن چکے ہیں۔

اشیاء کی برآمدات کے لیے این او سی کے حصول کا طریقہ کار انتہائی پیچیدہ رکھا گیا ہے جو کاروباری سرگرمیاں متاثر کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ اسی پیچیدہ طریقہ کار کی بدولت تاجر برادری کو اجازت ناموں کیلئے کئی کئی ہفتے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ دوسری جانب سکیورٹی کے نام پر جابجا چیک پوسٹوں اور کڑی نگرانی کی وجہ سے برآمدی سامان بھی بروقت نہیں پہنچ سکتا۔

ان رکاوٹوں کی وجہ سے تاجر برادری مایوسی کا شکار ہے جبکہ بین الاقوامی خریدار متبادل مارکیٹوں کا رخ کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال کشمیر کی معیشت کو دباؤ کا شکار کئے ہوئے ہے۔

اہل کشمیر اور تاجر برادری کا یہ خیال ہے کہ مودی سرکار سکیورٹی کے نام پر جان بوجھ کر مقامی معیشت کو کمزور کر رہی ہے تاکہ کشمیریوں کی مقامی صنعت دباؤ کا شکار رہے اور مجبور ہو کر بھارت پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرے۔ ان تمام حالات میں کاریگر اپنی دستکاری کا ہنر ترک کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں یا انہوں نے بھارت کے بڑے تاجروں کی ظالمانہ شرائط کے سامنے سر جھکا لیا ہے۔ کشمیر کے عوام بجا طور پر اس عمل کو اپنی ثقافت کی شناخت اور خودمختاری پر حملہ سمجھتے ہیں۔

2019ء سے تاحال چھ برس میں بھارت سرکار بین الاقوامی برادری کو باور کرانے کی کوشش کر رہی ہے کہ کشمیر میں نارملسی قائم ہے تاہم حکومت کے اپنے اعداد و شمار، تاجروں کی رائے اور برآمدی صنعت کا زوال اس امر کے غماز ہیں کہ ان نارملسی منتر بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔

اگر یہ دعوے حقیقت پر مبنی ہوتے تو مقبوضہ کشمیر میں مثالی امن و امان دیکھنے میں آتا اور ہینڈی کرافٹ کی اہم ترین صنعت معاشی بحران کا سامنا نہ کر رہی ہوتی۔ ہینڈی کرافٹ کی برآمدات صرف ایک سال میں 72 کروڑ روپے کی بڑی کمی بھارتی بیانیہ کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے۔

کشمیر کی بنی ہوئی مصنوعات بین الاقوامی مارکیٹ میں کئی دہائیوں سے منفرد مقام کی حامل ہیں۔ تاہم مودی سرکار کے از خود بنائے ہوئے تنازعات اس مقام کو بری طرح مجروح کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے کشمیری مصنوعات کے برانڈز کی ساکھ عالمی خریداروں کی نظر میں انتہائی کم ہوچکی ہے۔ اگر یہی حالات برقرار رہتے ہیں تو مستقبل میں یہ صنعت ختم بھی ہوسکتی ہے جو کشمیری تاجروں اور ہنرمند کاریگروں کی معیشت کیلئے بہت بڑا دھچکا ہوگا۔

کشمیر کے ہینڈی کرافٹس محض برآمدات کی صنعت کا درجہ نہیں رکھتے بلکہ اس صنعت سے وابستہ ہزاروں خاندانوں کے روزگار کا ذریعہ بھی ہیں۔ اب ان برآمدات کم ہونے کا نتیجہ بڑے پیمانے پر بیروزگاری کی صورت میں نکل رہا ہے جو ان کی مالی مشکلات میں اضافے کا سبب ہے۔ اسی طرح آج کی نوجوان نسل میں دستکاری کے لازوال ہنر سیکھنے کا رجحان انتہائی کم ہوچکا ہے کیونکہ انہیں اس فن کا مستقبل پائیدار نظر نہیں آرہا۔ ان حالات میں کشمیریوں کا یہی قیمتی ثقافتی ورثہ اور معیشت زوال کی جانب گامزن ہیں۔

بھارت کے بیشتر سماجی کارکن اور معاشی ماہرین کا موقف ہے کہ مودی سرکار نے ترقی کے نام پر معاشی جبر قائم کر رکھا ہے۔ بھارتی حکومت نے آرٹیکل 370 منسوخ کرنے کے بعد یہ وعدہ کیا تھا کہ کشمیر میں نئے معاشی دور کا آغاز ہوگا لیکن کشمیر کے موجودہ حالات اس صورتحال کے برعکس ہیں۔

مقبوضہ کشمیر میں ایسی ہی صورتحال برقرار رہتی ہے تو آئندہ چند سالوں میں ہینڈی کرافٹ کی بے مثال صنعت خطرے میں پڑ سکتی ہے جو کشمیری عوام کی معاشی خودمختاری ختم کرنے کے مترادف ہوگا۔ یہ صرف صنعت کا زوال نہیں بلکہ وادی کی صدیوں پر محیط تاریخی شناخت مٹانے کی سازش ہے۔

بین الاقوامی برادری کو بھی کشمیر کی یہ تاریخی شناخت مٹانے کیلئے بھرپور کردار ادا کرنا چاہئے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • munir nigah

    ڈاکٹر محمد منیر ایک معروف اسکالر ہیں جنہیں تحقیق، اکیڈمک مینجمنٹ، اور مختلف معروف تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیوں میں تدریس کا 26 سال کا تجربہ ہے۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز (DSS) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔