بھارتی میڈیا کی جانب سے پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزامات لگانے کی روایت کوئی نئی نہیں۔ حالیہ دنوں ایک بار پھر بھارتی میڈیا نے اپنی روایت دوہراتے ہوئے یہ جھوٹ پھیلایا کہ تین پاکستانی دہشت گرد جو مبینہ طور پر لشکر طیبہ سے وابستہ ہیں نیپال کے راستے بھارتی ریاست بہار میں داخل ہوئے ہیں۔ یہ خبر سب سے پہلے معروف بھارتی میڈیا آؤٹ لیٹ انڈیا ٹوڈے نے نشر کی جس کے بعد دیگر چینلز نے بھی اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ نیپالی پولیس نے جب اصل حقیقت سامنے رکھی تو جلد ہی یہ پروپیگنڈا منہ کے بل زمین پر آ گرا۔ نیپال پولیس، امیگریشن ڈیپارٹمنٹ اور کھٹمنڈو ایئرپورٹ اتھارٹی نے واضح کر دیا کہ تینوں پاکستانی شہری بہار میں داخل نہیں ہوئے بلکہ وہ مختلف اوقات میں کھٹمنڈو سے کوالالمپور (ملائیشیا) کے لیے پرواز کر گئے تھے۔ ان پاکستانی شہریوں کی شناخت عادل، حسنین اور عثمان کے ناموں سے ہوئی جو عام نوکری کے متلاشی افراد تھے، نہ کہ کسی کالعدم تنظیم سے وابستہ۔
بھارتی میڈیا کی تضاد بیانی کا دلچسپ امر یہ ہے کہ یہی خبر نشر کرنے والا انڈیا ٹوڈے کچھ دن بعد اپنی ہی خبر کی تردید شائع کرنے پر مجبور ہوا۔ اس واقعے نے ایک بار پھر بھارتی میڈیا کی ساکھ کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا۔ یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ بھارتی میڈیا کو جھوٹی خبروں پر شرمندگی اٹھانی پڑی ہو، مگر پاکستان مخالف پروپیگنڈے کے معاملے میں بھارتی میڈیا بار بار رسوا ہوتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق یہ جھوٹا پروپیگنڈا دراصل بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے سیاسی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ بہار میں انتخابات قریب ہیں اور بی جے پی ہمیشہ کی طرح ووٹرز کو خوفزدہ کرنے کے لیے پاکستان مخالف کارڈ کھیل رہی ہے۔ یہ بیانیہ عوام میں دہشت پیدا کر کے ہندو ووٹ بینک اپنے حق میں کرنے کی ایک مذموم کوشش ہے۔
مودی سرکار کے حامی میڈیا ہاؤسز نے اس خبر کے ذریعے پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنے کی کوشش کی لیکن نیپال پولیس کے بروقت بیان نے ان عزائم پر پانی پھیر دیا۔ بھارت کی جھوٹی کہانیاں اب بین الاقوامی سطح پر محض ایک تماشے سے زیادہ کچھ نہیں رہیں۔
بھارت کے اندر اور باہر یہ تاثر مضبوط ہو چکا ہے کہ بھارتی میڈیا جھوٹ کی فیکٹری ہے جسے گودی میڈیا کہا جاتا ہے۔ بارہا تردید کے باوجود یہ میڈیا ہاؤسز جھوٹی خبریں گھڑتے ہیں تاکہ اپنی حکومت کے پروپیگنڈے کو سہارا دے سکیں۔ نیپال جیسے ہمسایہ ملک نے بھی اس بار براہ راست جھوٹ کی قلعی کھول دی جو بھارت کے لیے شرمندگی کا باعث بنا۔
جہاں ایک طرف بھارت کی کئی ریاستیں جیسے اڑیسہ، اروناچل پردیش، ہماچل پردیش اور مقبوضہ کشمیر حالیہ سیلابی تباہ کاریوں سے دوچار ہیں اور عوام ریلیف کے منتظر ہیں، وہیں بھارتی میڈیا اپنی توانائیاں جھوٹی خبریں گھڑنے پر صرف کر رہا ہے۔ عوامی مسائل کو اجاگر کرنے اور حکومت کو جوابدہ بنانے کے بجائے یہ میڈیا پروپیگنڈے کی مہم میں مصروف ہے۔
نیپالی پولیس نے صاف الفاظ میں کہا کہ یہ خبر سراسر بے بنیاد ہے۔ تینوں پاکستانی شہری نہ دہشت گرد تھے اور نہ ہی انہوں نے بھارت میں داخل ہونے کی کوئی کوشش کی۔ نیپالی اداروں نے اپنے مؤقف کو دستاویزی شواہد کے ساتھ پیش کیا جن میں فلائٹ ریکارڈز اور امیگریشن کی تفصیلات شامل تھیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ بھارت نے پاکستان پر جھوٹے الزامات عائد کیے ہوں۔ ماضی میں بھی پلوامہ حملے سے لے کر بالاکوٹ واقعے تک بھارت نے ہر موقع پر بغیر ثبوت پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اکثر واقعات کے پیچھے یا تو بھارتی اداروں کی ناکامیاں چھپی ہیں یا داخلی سیاسی مفادات کا عمل دخل نظر آتا ہے۔
بھارت نے اس واقعے میں جس تنظیم کا نام گھڑا، یعنی لشکر طیبہ، وہ 2022 سے پاکستان میں کالعدم قرار دی جا چکی ہے۔ اس کے باوجود بھارتی میڈیا اسی تنظیم کو زندہ کر کے ہر واقعے میں پاکستان سے جوڑنے کی کوشش کرتا ہے جو اس کی بدنیتی اور پروپیگنڈا مہم کو ظاہر کرتا ہے۔
بھارت کے خفیہ ادارے جیسے را اور تحقیقاتی ادارہ این آئی اے بار بار اپنی ناکامیوں کی وجہ سے تنقید کی زد میں آتے ہیں۔ ایک طرف وہ داخلی سکیورٹی کی ضمانت دینے میں ناکام ہیں تو دوسری طرف اپنی کمزوریوں کو چھپانے کے لیے پاکستان پر الزام تراشی کرتے ہیں۔ اس واقعے نے ایک بار پھر ان اداروں کی نااہلی کو بے نقاب کر دیا ہے۔
بھارتی میڈیا کی جھوٹی مہم نہ صرف بھارت کے اندر بلکہ عالمی سطح پر بھی اس کی ساکھ کو تباہ کر رہی ہے۔ دنیا بھر میں بھارتی میڈیا کو اب ایک افواہیں پھیلانے والا پلیٹ فارم سمجھا جاتا ہے۔ نیپال کے دو ٹوک مؤقف کے بعد بھارت کو ایک بار پھر عالمی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ حقیقت اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ بی جے پی اور بھارتی میڈیا ایک دوسرے کے آلہ کار ہیں۔ بھارتی حکومت اپنے مذموم سیاسی مقاصد کے لیے میڈیا کو استعمال کرتی ہے جبکہ میڈیا اپنی جانبدارانہ اور گمراہ کن رپورٹنگ کے ذریعے حکومت کو سہارا دیتا ہے۔ اس واقعے میں بھی یہی دیکھنے کو ملا۔
بھارت کے کئی باشعور حلقوں نے اس پروپیگنڈے پر سخت ردعمل دیا۔ سوشل میڈیا پر بھارتی میڈیا کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا اور نیپالی پولیس کی تردید کو وسیع پیمانے پر شیئر کیا گیا۔ عوامی سطح پر یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر بھارتی میڈیا اپنے ہی شہریوں کو جھوٹ کے ذریعے کیوں گمراہ کر رہا ہے۔
اس واقعے نے واضح کر دیا کہ بھارت اپنی داخلی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے پاکستان مخالف پروپیگنڈا استعمال کرتا ہے۔ تاہم جھوٹ زیادہ دیر چھپ نہیں سکتا۔ نیپال کی دو ٹوک تردید نے ایک بار پھر مودی سرکار اور اس کے میڈیا کے مکروہ چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ واقعہ اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت کا پاکستان مخالف بیانیہ محض ایک سیاسی ہتھیار ہے جس کا مقصد عوام کو خوفزدہ کر کے ووٹ حاصل کرنا اور اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنا ہے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
مزمل خان سیاست اور بین الاقوامی معاشیات میں گہری دلچسپی کے ساتھ، ان کا تعلیمی کام اس بات کی کھوج کرتا ہے کہ کس طرح بنیادی ڈھانچہ اور جغرافیائی سیاسی حرکیات تجارتی راستوں اور علاقائی تعاون کو متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر جنوبی اور وسطی ایشیا میں۔ موزممل شواہد پر مبنی تحقیق کے ذریعے پالیسی مکالمے اور پائیدار ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے پرجوش ہے اور اس کا مقصد تعلیمی انکوائری اور عملی پالیسی سازی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔
View all posts