اسرائیلی خفیہ حکمتِ عملی بے نقاب
ایران اور اسرائیل کی دشمنی برسوں سے جاری ہے، لیکن حالیہ سالوں میں یہ کشیدگی ایسے واقعات کے ساتھ سامنے آئی جنہوں نے سب کو حیران کر دیا۔ ایک ایک کر کے ایران کے سائنسدان اور فوجی افسر پراسرار حملوں میں مارے گئے۔ یہ خبریں جب سامنے آئیں تو لوگوں کو لگا شاید یہ کسی فلم کی کہانی ہے، مگر یہ سب حقیقت تھی جس کے اثرات آج بھی خطے پر چھائے ہوئے ہیں۔
ایران کا جوہری پروگرام شروع دن سے ہی بحث کا موضوع رہا ہے۔ مغربی دنیا ہمیشہ شک کرتی آئی ہے کہ ایران ایٹمی ہتھیار بنا رہا ہے، جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ یہ سب توانائی اور تحقیق کے لیے ہے۔ اس کشمکش کے دوران ایک بڑا نام سامنے آیا: محسن فخری زادہ۔ وہ ایران کے سب سے اہم سائنسدانوں میں شمار ہوتے تھے۔ ایک دن ان کی گاڑی پر ایسا حملہ ہوا جو حیران کن تھا۔ ایران نے بتایا کہ اس میں ریموٹ کنٹرول ہتھیار استعمال کیے گئے، سب کچھ اتنی صفائی سے کیا گیا کہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ یہ کوئی بڑا خفیہ آپریشن تھا۔ تہران نے فوراً اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہرایا۔
فوجی قیادت بھی اس دباؤ سے محفوظ نہ رہی۔ جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت نے ایران کو ہلا کر رکھ دیا۔ انہیں بغداد میں ڈرون کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔ اگرچہ کارروائی امریکی فوج نے کی، مگر ایران کے نزدیک اسرائیل نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا۔ سلیمانی کی موت پر لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے، اور یہ واقعہ ایران کے لیے صرف ایک نقصان نہیں بلکہ ایک بڑا دھچکا تھا۔
ان سب حملوں کے پیچھے اسرائیل کی سوچ صاف نظر آتی ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ ایران کا ایٹمی پروگرام اس کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔ اسی لیے اسرائیل کھلے عام جنگ کے بجائے ایسے خفیہ راستے اپناتا ہے جن سے ایران اندرونی طور پر کمزور ہو جائے۔ سائنسدانوں اور کمانڈروں کو نشانہ بنانا اسی حکمت عملی کا حصہ ہے۔
لیکن نتیجہ اس کے برعکس نکلتا ہے۔ ایران ہر بار مزید سخت رویہ اختیار کرتا ہے۔ عوامی جذبات بھڑک اٹھتے ہیں اور حکومت کا لہجہ اور زیادہ جارحانہ ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ امن قریب آنے کے بجائے مزید دور چلا جاتا ہے۔ بڑی طاقتیں بھی اس صورتحال سے پریشان ہیں کیونکہ مشرقِ وسطیٰ میں جنگ صرف مقامی مسئلہ نہیں رہتی، یہ دنیا بھر کی معیشت اور سیاست کو ہلا دیتی ہے۔
یہ سب واقعات ایک نئی حقیقت واضح کرتے ہیں: آج کی جنگ صرف ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتی، بلکہ انٹیلی جنس، ٹیکنالوجی اور خفیہ نیٹ ورکس اصل ہتھیار بن چکے ہیں۔ ایران کے سائنسدانوں اور کمانڈروں پر حملے اسی بات کا ثبوت ہیں۔ لیکن اصل سوال وہی ہے: کیا اس طرح امن قائم ہو سکتا ہے یا یہ سب صرف مزید خونریزی کی طرف لے جائے گا؟
ابھی تک اس سوال کا کوئی جواب نہیں۔ مگر اتنا ضرور ہے کہ جب تک ایران اور اسرائیل اپنی پرانی دشمنی ختم نہیں کرتے، خطے کا سکون خواب ہی رہے گا۔