Nigah

مودی سرکار کی بھیک مہم

nigah moodi sarkar

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایک دہائی سے خود کو ایسے رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی کہ وہ بھارت کو عالمی طاقتوں کے برابر لائیں گے لیکن نمائشی سفارت کاری اور فریب پر مبنی پالیسیوں نے ثابت کر دیا کہ مودی عزت و وقار کے ساتھ عالمی برادری میں کھڑا ہونے کے قابل نہیں۔ رہی سہی کسر معرکہ حق میں پاکستان سے شکست نے پوری کردی اور بھارت کو عالمی سطح پر تنہا کردیا۔ پاک بھارت جنگ بندی میں امریکی صدر ٹرمپ کی کاوشوں کو نظر انداز کرنے سے بھارت کے امریکہ سے تعلقات سرد مہری کا شکار ہو چکے ہیں۔ چنانچہ ان اثرات کو کم کرنے کی غرض سے مودی نے جاپان اور دیگر ایشیائی ممالک کا رخ کیا تاکہ یہ ظاہر کیا جا سکے کہ بھارت عالمی سطح پر الگ تھلگ نہیں ہوا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ واشنگٹن کی بڑھتی ہوئی سرد مہری اور یورپی طاقتوں کے محتاط رویے نے بھارت کو غیر یقینی صورتحال میں ڈال دیا ہے۔ مودی کی سفارت کاری اب طاقتور شراکت دار کی بجائے سفارتی سہارا ڈھونڈنے کی ایک بے چین کوشش دکھائی دیتی ہے۔

انتہا پسند مودی سرکار امریکہ کو سب سے بڑا قریبی شرکت دار قرار دیتی رہی، حقیقت کھلنے پر امریکہ بھارت کی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، اقلیتوں پر پرتشدد حملوں، مقبوضہ کشمیر کے عوام پر جاری ظلم و ستم، صحافت کی آزادی پر قدغن اور عدلیہ پر دباؤ جیسی پالیسیوں پر کھل کر تنقید کر رہا ہے۔

بھارت کی سفارتی کوششیں
ایسے میں بھارت کی جاپان، آسیان اور جنوبی کوریا جیسے ممالک کو متبادل سہارا بنانے کی کاوش اپنی عالمی ساکھ بچانے کی سعی لاحاصل ہے۔ یہ دورے زیادہ تر علامتی ہیں، عملی تعاون یا بڑے معاہدے ہوتے نظر نہیں آتے۔

جاپان امریکہ کے بغیر بھارت کو کسی بڑے سٹریٹجک پارٹنر کے طور پر قبول کرنے سے قاصر ہے۔ جاپان اپنی سلامتی کے لیے مکمل طور پر واشنگٹن پر انحصار کرتا ہے۔ چنانچہ مودی کا دورہ مشترکہ بیانات اور فوٹو سیشن تک محدود رہا۔

nigah rahul gandi moodi

جنوبی کوریا اور آسیان ممالک بھی امریکہ سے تعلقات کو اہمیت دیتے ہیں اور مودی کو ان ممالک سے مایوسی کے سوا کچھ نہیں ملا۔ وہ رہنما جو کبھی بھارت کو عالمی طاقت کے طور پر پیش کرتا تھا آج خطے میں اپنی حیثیت بچانے کے لیے در در پر دستک دے رہا ہے۔ یہ خود اعتماد لیڈر کا رویہ نہیں بلکہ بے بس حکمران کی ایک جھلک ہے جو ساکھ کے ٹوٹنے کے خوف سے دوچار ہے۔

اندرونی طور پر بھارت کی معیشت تضادات میں گھری ہے، بے روزگاری اور عدم مساوات عروج پر ہیں۔

انتہا پسند وزیراعظم مودی کے ناقدین کا موقف ہے کہ حالیہ دوروں نے بھارت کی کمزور سفارتی پوزیشن مزید نمایاں کر دی۔ یہ سفر طاقتور شراکت داری کی نہیں بلکہ عالمی سطح پر تنہائی کے خوف سے نکلنے کے لیے بھیک مانگنے کی مہم ہے۔

عالمی ساکھ بحال کرنے کے لیے بھارت کو اپنی داخلی و بیرونی پالیسیوں پر نظر ثانی اور اقلیتوں پر مظالم بند کرنے ہوں گے۔ انسانی حقوق کی پامالی جیسے مسائل حل کیے بغیر کوئی بھی ملک بھارت کے ساتھ شراکت داری پر آمادہ نہیں ہوگا۔ اور مودی یاترا ہمیشہ بھیک مانگنے کی مہم کے طور پر یاد رکھی جائے گی۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر مزمل خان

    مزمل خان سیاست اور بین الاقوامی معاشیات میں گہری دلچسپی کے ساتھ، ان کا تعلیمی کام اس بات کی کھوج کرتا ہے کہ کس طرح بنیادی ڈھانچہ اور جغرافیائی سیاسی حرکیات تجارتی راستوں اور علاقائی تعاون کو متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر جنوبی اور وسطی ایشیا میں۔ موزممل شواہد پر مبنی تحقیق کے ذریعے پالیسی مکالمے اور پائیدار ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے پرجوش ہے اور اس کا مقصد تعلیمی انکوائری اور عملی پالیسی سازی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔