Nigah

بھارت کی معیشت مغرب کے شکنجے میں

Indian Prime Minister Narendra Modi stands smiling between Saudi Crown Prince Mohammed bin Salman and U.S. President Joe Biden, who are shaking hands at a formal summit. Behind them, a backdrop reads 'भारत 2023 INDIA' and references the Partnership for Global Infrastructure Investment and the Middle East-Europe Economic Corridor, signaling international cooperation on strategic infrastructure.

بھارت کو ایک ابھرتی ہوئی معیشت کے طور پر دنیا میں پیش کیا جاتا ہے۔ عالمی ادارے کئی برسوں سے یہ پیش گوئیاں کرتے آ رہے ہیں کہ بھارت آنے والے برسوں میں دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بن سکتا ہے۔ تاہم یہ خواب اب حقیقت سے کوسوں دور نظر آ رہا ہے کیونکہ مغربی طاقتوں، خصوصاً امریکا اور یورپی یونین کی نئی پابندیاں بھارت کی توانائی سے متعلق پالیسیوں پر براہِ راست حملہ کر رہی ہیں۔ سعودی آرامکو اور عراق کی سومو کمپنیوں کی جانب سے نایارا انرجی کو تیل کی فراہمی بند کرنا نہ صرف ایک معاشی دھچکا ہے بلکہ بھارت کی پالیسیوں کے لیے موت کا خطرہ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔

امریکا نے روسی کاروباروں پر پابندیوں کی جو مہم شروع کی تھی یورپی یونین نے اسے مزید سخت کر دیا ہے۔ بھارت جو بظاہر روس اور مغرب دونوں کے ساتھ تعلقات قائم رکھنا چاہتا ہے، اس دوغلی حکمت عملی کی سزا بھگت رہا ہے۔ یورپ اور امریکا نے مشترکہ طور پر بھارتی معیشت کے لیے نئی دیواریں کھڑی کر دی ہیں۔ یہ دباؤ کسی وقتی پریشانی کا نام نہیں بلکہ ایک ایسا سلسلہ ہے جو بھارت کی توانائی پالیسی، درآمدی ڈھانچے اور تجارتی توازن کو ہلا کر رکھ دے گا۔

A person holds two papers in front of a rusted industrial site labeled 'Nayara Energy.' One paper shows a map of India with a handwritten message: 'India's dream of becoming a world power is shattered & is Westered by Western sanctions.' The other paper features a map with route markings and a photo. The background includes overgrown vegetation and a decaying cylindrical structure, visually reinforcing the theme of stalled progress and geopolitical critique.

بھارت کی سب سے بڑی نجی ریفائنری نایارا انرجی اس وقت مغربی پابندیوں کا سب سے بڑا شکار بن چکی ہے۔ یہ ریفائنری روسی سرمایہ کاری سے براہِ راست منسلک ہے اور اسی لیے مغربی ممالک نے اسے نشانہ بنایا۔ صورتحال اس وقت نازک ہو گئی جب سعودی کی آرامکو اور عراق کی سومو کمپنی جو برسوں سے بھارت کے مستحکم سپلائرز تھے نے اچانک اپنی فراہمی بند کر دی۔ اس فیصلے نے بھارت کے توانائی ڈھانچے میں ایک بڑا خلا پیدا کر دیا ہے۔

یہ بحران صرف سیاسی یا سفارتی سطح پر نہیں بلکہ اعداد و شمار کی دنیا میں بھی واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ نایارا انرجی ہر ماہ تقریباً 20 لاکھ بیرل عراقی خام تیل اور 10 لاکھ بیرل سعودی تیل حاصل کرتی تھی۔ تاہم اگست 2025 میں نایارا انرجی مذکورہ تیل کی فراہمی سے مکمل طور پر محروم رہی۔ اور ایک بھی بیرل بھارت تک نہ پہنچا۔ یہ صرف تجارتی نقصان نہیں بلکہ بھارت کی توانائی سے متعلق سلامتی پر ایک کاری ضرب ہے۔ ریفائنریز کی پیداوار میں کمی آ رہی ہے، جس کے نتیجے میں ایندھن کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ عام بھارتی شہری پٹرول اور ڈیزل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے بوجھ تلے دب رہا ہے۔ جبکہ صنعتی پیداوار میں سست روی اور برآمدات میں کمی معیشت کے لیے زہر قاتل بن رہی ہیں۔

Stylized graphic depicting India's economic decline, featuring the Indian flag with the Ashoka Chakra in the background. A bold red downward arrow overlays the flag, pointing toward multicolored bar graphs (blue, purple, red, green) that trend downward. The top left corner includes the text 'NIGAH' with a red symbol, reinforcing the theme of financial downturn and national concern.

بھارت کا شمار دنیا کی تیزی سے ترقی کرتی ہوئی معیشتوں میں ہوتا ہے لیکن یہ ترقی توانائی کے بغیر ممکن نہیں۔ بھارت کی صنعت، ٹرانسپورٹ اور زراعت کا انحصار درآمدی تیل پر ہے۔ اب جبکہ مغربی پابندیاں اس تیل کی رسد کو محدود کر رہی ہیں تو بھارت کے پاس کوئی واضح متبادل موجود نہیں۔ ایران سے تعلقات امریکا کی ناراضگی کے خوف سے محدود ہیں۔ روس پر انحصار پہلے ہی مغربی دباؤ کی زد میں ہے اور خلیجی ممالک مغربی پابندیوں کے دباؤ میں بھارت سے ہاتھ کھینچ رہے ہیں۔ یہ صورت حال بھارت کی توانائی سلامتی کو براہِ راست نشانہ بنا رہی ہے۔

بین الاقوامی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت اس وقت مغرب کی سخت پالیسیوں کا سامنا اس لیے کر رہا ہے کیونکہ اس نے گزشتہ برسوں میں واضح اور مستقل مؤقف اختیار نہیں کیا۔ ایک طرف نئی دہلی روس سے تیل اور گیس سستے داموں خریدتا رہا تاکہ اپنی معیشت کو سہارا دے سکے اور دوسری طرف امریکا اور یورپ کے ساتھ قریبی تعلقات کا دعویٰ کرتا رہا۔

یہ دوغلی حکمتِ عملی اب بھارت کے گلے کا پھندا بنتی جا رہی ہے۔

مغربی ممالک بھارت کو عالمی منظرنامے سے دور دھکیل رہے ہیں اور یہ پیغام دے رہے ہیں کہ یا تو ہمارے ساتھ ہو یا پھر ہمارے خلاف۔

ان پابندیوں کے اثرات صرف تیل کی فراہمی تک محدود نہیں۔ نایارا انرجی کی پیداوار میں کمی کے باعث بھارت کے کئی صنعتی شعبے متاثر ہو رہے ہیں۔ اسٹیل، سیمنٹ، کیمیکلز اور ٹرانسپورٹ کے شعبے سب سے زیادہ دباؤ میں ہیں۔ بجلی کی پیداوار مہنگی ہو رہی ہے۔ زرعی مشینری کے لیے ڈیزل کی قیمت بڑھ رہی ہے اور عام صارف کو مہنگائی کے طوفان کا سامنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ دباؤ چند ماہ مزید جاری رہا تو بھارت کا تجارتی خسارہ کئی گنا بڑھ سکتا ہے۔ درآمدات مہنگی اور برآمدات غیر مسابقتی ہو جائیں گی جس سے زرِمبادلہ کے ذخائر پر بھی دباؤ بڑھے گا۔

بھارت برسوں سے یہ دعویٰ کرتا آ رہا ہے کہ وہ عالمی طاقت بننے کی راہ پر ہے۔ میک ان انڈیا جیسے پروگرام، جدید ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری اور عالمی سطح پر سفارت کاری ان خوابوں کی تصویر کشی کرتے ہیں۔

لیکن توانائی کے بغیر یہ تمام منصوبے کاغذی خواب بن کر رہ جائیں گے۔

اگر مغربی پابندیاں جاری رہیں تو بھارت کی معیشت کے پہیے سست ہو جائیں گے اور یہ ملک طاقت بننے کے بجائے اپنے وجود کو قائم رکھنے

کی جنگ میں الجھ جائے گا۔

یہ سوال بھی اہم ہے کہ بھارت اس بحران سے کیسے نکلے گا؟ کچھ ماہرین کے مطابق بھارت کو متبادل ذرائع تلاش کرنے ہوں گے۔ مثلاً ایران یا وینزویلا سے تیل کی خریداری۔ تاہم یہ راستہ بھی امریکا کی ناراضگی مول لے سکتا ہے۔ دوسری تجویز یہ ہے کہ بھارت اپنی توانائی پالیسی میں تیزی سے تبدیلی لا کر قابل تجدید توانائی پر انحصار بڑھائے مگر یہ ایک طویل المیعاد منصوبہ ہے اور موجودہ بحران کے لیے فوری حل نہیں۔

امریکا اور یورپی یونین کے اس مشترکہ دباؤ کا اصل مقصد بھارت کو ایک واضح پیغام دینا ہے کہ "یا تو ہمارے ساتھ کھڑے ہو جاو پھر اپنی معیشت تباہ ہوتے دیکھو”۔ بھارت نے اب تک غیرجانبداری کا جو کھیل کھیلا تھا وہ اب مزید نہیں چل سکے گا۔ مغربی اتحاد نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنی شرائط مسلط کرنے کے لیے کسی بھی ملک کو کونے میں دھکیل سکتا ہے۔ خواہ وہ ملک دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہی کیوں نہ ہو۔

بھارت آج ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں اسے اپنی خارجہ اور توانائی پالیسیوں پر ازسرنو غور کرنا ہوگا۔ مغربی پابندیاں اس کے لیے سخت سبق ہیں کہ دوغلی حکمتِ عملی دیرپا نہیں ہوتی۔ اگر بھارت نے فوری طور پر کوئی متبادل راستہ نہ نکالا تو نہ صرف اس کی توانائی سلامتی بلکہ معاشی استحکام بھی زمین بوس ہو جائے گا۔ یہ بحران بھارت کو یہ سوچنے پر مجبور کرے گا کہ کیا وہ مغربی اتحاد کا وفادار بننے کو تیار ہے یا اپنی خودمختاری کے لیے نئے اتحادی تلاش کرے گا۔ جو بھی فیصلہ ہوگا یہ طے ہے کہ بھارت کی معیشت اور اس کے عالمی طاقت بننے کے خواب شدید دباؤ میں ہیں۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر حمزہ خان

    ڈاکٹر حمزہ خان نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں، اور یورپ سے متعلق عصری مسائل پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور لندن، برطانیہ میں مقیم ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔