یہ وہی ملک ہے جو پائیدار اور معتبر مقام حاصل کر سکتا ہے جو اپنی خارجہ پالیسی کو شفاف، مستقل اور حقیقت پسندانہ خطوط پر استوار کرے۔ اگر کوئی ریاست دوغلے پن، تضادات اور وقتی مفادات کی بنیاد پر پالیسی چلائے تو وہ وقتی طور پر چند فوائد تو ضرور حاصل کر لیتی ہے لیکن عالمی سطح پر اس کی ساکھ کمزور ہو جاتی ہے۔ یہی حال آج بھارت کا ہے جس کی خارجہ پالیسی مودی حکومت کے ہاتھوں مکمل طور پر ناکامی کی تصویر بن چکی ہے۔ خوف، کنفیوژن اور دوغلے پن نے بھارت کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ نہ مشرقی طاقتیں اس پر اعتماد کرتی ہیں اور نہ ہی مغربی بلاک اسے سنجیدہ لیتا ہے۔
انتہا پسند بھارتی حکومت کی خارجہ پالیسی مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ چین اور روس کے ساتھ قربت کے ڈرامے اور ٹرمپ کو خوش کرنے کی ناکام کوششوں نے بھارت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ بھارت ان دنوں سفارتی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے مودی کی غیر حاضری اس کے ذلت کے خوف کی علامت ہے جبکہ برکس سے غیر حاضری واشنگٹن کے غصے کے ڈر کا ثبوت ہے۔ آج بھارت ایک الجھا ہوا اور بے اعتبار ملک بن چکا ہے۔
بھارت نے بڑی چالاکی سے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ چین اور روس کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم کر رہا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاسوں میں بھارت نے صرف فوٹو سیشن کے ذریعے دنیا کو دکھایا کہ وہ بیجنگ اور ماسکو کے قریب ہے لیکن حقیقت میں یہ قربت صرف دکھاوے کی حد تک تھی۔ عملی طور پر بھارت نہ تو چین کو مطمئن کر سکا نہ ہی روس کو۔ یہ سب ایک دوغلے کھیل کا حصہ ہے جس میں بھارت خود ہی پھنسا ہوا ہے۔
دنیا خصوصاً بڑی طاقتوں کو معلوم ہو چکا ہے کہ بھارت قابل اعتماد شراکت دار نہیں۔
امریکہ کی طرف سے بھارت پر مزید تجارتی پابندیوں کے خوف سے بھارت برکس کے اجلاس میں شرکت نہیں کر رہا۔ بھارت کا گھمنڈ ختم ہو چکا ہے۔ نہ یہ چین اور روس کے ساتھ بیٹھ کر امریکی تجارتی جارحیت پر بات کر سکا نہ ہی امریکہ کو دباؤ میں لا سکا۔ واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے روسی تیل خریدنے پر بھارتی درآمدات پر 50 فیصد محصولات لگا دیے مگر مزید امریکی پابندیوں کے خوف سے مودی کے منہ سے ایک لفظ نہ نکل سکا۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے غیر حاضری کا مطلب یہ ہے کہ وہ یہ نہیں چاہتا کہ امریکہ میں ٹرمپ کے تیز حملوں سے مزید شرمندہ نہ ہو۔
ایک مضبوط لیڈر کا دعویدار وزیراعظم امریکی صدر ٹرمپ کی سخت زبان سے عوامی ڈر کے باعث جنرل اسمبلی سے غائب ہو رہا ہے۔ ٹرمپ نے بھارت کو سبق سکھا دیا ہے کہ روسی تیل صرف یورپ خرید سکتا ہے بھارت نہیں۔ مودی کا اپنی پوزیشن کا دفاع نہ کرنا اس کی کمزور اور غلامانہ سفارتکاری کی علامت ہے۔ مودی کی ناکام بیلنسنگ ایکٹ پالیسی رسوائی اور الجھن میں بدل گئی ہے۔ ایک طرف جنرل اسمبلی میں نہ جانا، دوسری طرف برکس اجلاس سے کنی کترانا ثابت کرتا ہے کہ بھارت اپنی متکبرانہ اور دوغلی پالیسی کے سبب مکمل طور پر سفارتی تنہائی کا شکار ہو چکا ہے۔ مودی کی روسی صدر پیوٹن اور چینی صدر شی کے ساتھ تصویری ملاقاتوں نے اس کی ساکھ کو مکمل تباہ کر دیا۔
اسٹریٹیجک خودمختاری اب اسٹریٹیجک الجھن بن گئی ہے جسے کبھی بھارت ملٹی الائنمنٹ کہتا تھا۔ اصل میں یہ فیصلہ سازی کی کمزوری اور بھارتی خوف کی علامت ہے۔ بھارت کا جعلی ترقی کا تکبر اسے بے نقاب اور تنہا کر چکا ہے۔ پاکستان نے دوستی اور بھروسے پر مبنی واضح خارجہ پالیسی اختیار کی ہے جبکہ مودی کا بھارت تکبر، بے عملی اور بصیرت کی کمی کے باعث عالمی سطح پر ایک اجنبی اور مسترد ریاست بن چکا ہے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر محمد منیر ایک معروف اسکالر ہیں جنہیں تحقیق، اکیڈمک مینجمنٹ، اور مختلف معروف تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیوں میں تدریس کا 26 سال کا تجربہ ہے۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز (DSS) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
View all posts