پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ ہزاروں شہداء نے اپنے خون سے وطن کو محفوظ بنایا ہے۔ مگر بدقسمتی سے کچھ عناصر اب بھی ایسے بیانئے کو فروغ دیتے ہیں جو ریاست کو کمزور کرتا ہے اور دشمنوں کو طاقت دیتا ہے۔ حال ہی میں نیشنل کمیونی کیشن اینڈ سائبر انوسٹی گیشن اتھارٹی (NCCIA) کی جانب سے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ کو دیا گیا نوٹس اسی تناظر میں اہم قدم ہے۔ یہ نوٹس بظاہر ریاستی جبر قرار دیا جارہا ہے لیکن حقیقت میں یہ مکمل طور پر قانونی ہے اور آئین کے مطابق ہے۔ محسن داوڑ کو جو نوٹس دیا گیا ہے وہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 (PECA) کے تحت ہے۔ اس قانون کا مقصد سوشل میڈیا اور دیگر ڈیجیٹل پلیٹ فارم پر جھوٹی خبریں، ریاست مخالف مواد اور پروپیگنڈے کو روکنا ہے۔
محسن داوڑ کے انٹرویوز اور پاکستان میں سوشل میڈیا کے بیانات میں ایسے جملے موجود ہیں جو پاکستان کے اداروں کو کمزور کرنے کے مترادف ہیں۔ یہ کہنا کہ نوٹس ریاستی جبر ہے محض ایک سیاسی ہتھکنڈہ ہے۔ قانون سب کے لیے برابر ہے۔ اگر کوئی عام شہری ایسا مواد شیئر کرے تو اس کے خلاف بھی کارروائی ہوتی ہے پھر ایک رکن اسمبلی کس طرح قانون سے بالاتر ہو سکتا ہے۔ نوٹس دراصل یہ پیغام ہے کہ کوئی شخص چاہے کتنا ہی طاقتور کیوں نہ ہو قانون سے بالاتر نہیں۔
محسن داؤڑ بظاہر دہشت گردی کی مخالفت کا دعوٰی کرتے ہیں، لیکن ان کے بیانات اکثر پاکستان کی بجائے دشمنوں کے موقف سے ملتے جلتے ہیں۔ مختلف رپورٹس اور مشاہدات کے مطابق ان کے این ڈی ایس (افغان انٹیلی جنس ایجنسی) اور افغان حکومت کے اہلکاروں سے روابط رہے ہیں۔
نوٹس میں بجا طور پر سوال اٹھایا گیا ہے کہ اگر محسن داوڑ واقعی دہشت گردی کے خلاف ہیں تو ان کی زبان دشمنوں سے کیوں ملتی ہے؟ وہ کیوں دہشتگردوں کو براہ راست تنقید کا نشانہ بنانے کے بجائے پاکستان کو ہی مورد الزام ٹھہراتے ہیں؟ یہ رویہ دراصل دہشت گردوں کے بیانیے کو تقویت دیتا ہے اور ان شہداء کے ساتھ ناانصافی ہے۔
لیکن جب ان نعروں کے پیچھے ریاست مخالف بیانیہ اور دشمنی چھپی ہو تو یہ
جمہوریت نہیں بلکہ سازش کہلاتی ہے۔
محسن داوڑ اپنے بیانات میں ہمیشہ حقوق اور سچ بولنے کی بات کرتے ہیں لیکن حقیقت میں ان کا زیادہ تر بیانیہ پاکستان کو عالمی سطح پر کمزور کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دشمن میڈیا چینل ان کے بیانات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں۔ این سی سی آئی اے نے نوٹس دے کر واضح کیا ہے کہ ریاست کسی بھی ایسے پروپیگنڈے کو جمہوریت کے لبادے میں قبول نہیں کرے گی۔
پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف آپریشنز جیسے ضرب عضب اور ردالفساد میں ہزاروں جانوں کی قربانیاں دی گئی ہیں۔ فوجی جوان، پولیس اہلکار اور عام شہری سب اس جنگ میں شہید ہوئے۔ ان قربانیوں کو ریاستی زیادتی قرار دینا دراصل ہر شہید کی توہین ہے۔ یہ کہنا کہ ریاست نے دہشت گردی کے خلاف بلاوجہ طاقت استعمال کی، نہ صرف پروپیگنڈہ ہے بلکہ شہداء کے لواحقین کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔ این سی سی آئی اے کا نوٹس اسی توہین کا براہ راست جواب ہے۔
محسن داوڑ نے متعدد بار غیر ملکی میڈیا کو انٹرویو دیئے ہیں جہاں وہ پاکستان کو حملہ آور بنا کر پیش کرتے ہیں اور یلدا حکیم جیسے پاکستان مخالف صحافی ان کے موقف کو نمایاں کرتے ہیں۔ اس رویے کا مقصد عالمی برادری کے سامنے پاکستان کی منفی تصویر پیش کرنا ہے اور یہ نوٹس اس بات کا ثبوت ہے کہ محسن داوڑ کی سیاست انصاف کے بجائے انتشار پر کھڑی ہے۔ وہ کبھی دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کی مذمت نہیں کرتے لیکن پاکستان کے دفاعی اقدامات پر ہمیشہ سوال اٹھاتے ہیں۔
یہ طرز عمل اس بات کا اشارہ ہے کہ ان کی سیاست ایک مخصوص ایجنڈا کے تحت ہے۔ افغان سرزمین سے پاکستان پر حملے ہوتے ہیں، پاکستانی شہری اور سکیورٹی فورسز کے اہلکار شہید ہوتے ہیں لیکن محسن داوڑ کبھی ان حملوں پر لب کشائی نہیں کرتے۔ اس کے برعکس وہ ہمیشہ ایسے بیانات دیتے ہیں جو پاکستان کی سلامتی کے اداروں پر سوالیہ نشان لگاتے ہیں۔ این سی سی آئی اے کی انکوائری نے اس خاموشی اور منافقت کو بے نقاب کر دیا ہے۔ یہ رویہ ظاہر کرتا ہے کہ ان کی ترجیحات پاکستانی عوام کے بجائے کسی اور کے ایجنڈا کے مطابق ہیں۔
این سی سی آئی اے کے نوٹس میں یہ واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اگر محسن داوڑ نے تعاون نہ کیا تو ان کے خلاف مزید قانونی کارروائی ہوگی جس میں تعزیرات پاکستان کی دفعہ 174 بھی شامل ہے۔ یہ پیغام نہ صرف محسن داوڑ کو بلکہ ان سب کو ہے جو ریاستی اداروں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے اور کسی کو اجازت نہیں دی جا سکتی کہ وہ سرگرمی کے نام پر دشمن کے ایجنڈا کو سہارا دے۔ ریاست نے یہ واضح کر دیا ہے کہ محسن داوڑ کو عام شہری کی طرح قانون کا سامنا کرنا ہوگا۔
محسن داوڑ کے بیانات کو غیرملکی میڈیا ہمیشہ نمایاں کرتا ہے، خاص طور پر وہ پلیٹ فارمز جو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں۔ یہ بات اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ داوڑ کا بیانیہ اندرونی نہیں بلکہ بیرونی مفادات کو تقویت دیتا ہے۔ پاکستان کو چاہیے کہ وہ نہ صرف ایسے پروپیگنڈے کا توڑ کرے بلکہ اپنی قربانیوں اور کامیابیوں کو بھی عالمی سطح پر اجاگر کرے۔
پاکستانی عوام نے ہمیشہ اپنی افواج اور سکیورٹی اداروں پر اعتماد کیا ہے۔ دہشتگردی کے خلاف کامیابی اسی اتحاد کا نتیجہ ہے۔ ایسے میں داوڑ جیسے بیانیے دراصل عوام اور اداروں کے درمیان اعتماد توڑنے کی کوششیں ہیں۔ این سی سی آئی اے نے قانونی کارروائی شروع کر کے اس اعتماد کو مزید مضبوط کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ اقدام عوام کو یہ یقین دلاتا ہے کہ ریاست ہر اس شخص کے خلاف کارروائی کرے گی جو قربانیوں کی توہین کرے گا۔
این سی سی آئی اے کا محسن داؤر کو دیا گیا نوٹس محض ایک قانونی کارروائی نہیں بلکہ ایک واضح پیغام ہے کہ پاکستان کسی بھی ریاست مخالف بیانیے کو برداشت نہیں کرے گا۔ یہ نوٹس ثابت کرتا ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر پروپیگنڈہ پھیلانا اور دشمن کے ایجنڈے کو تقویت دینا ناقابل قبول ہے۔ ریاست نے ہزاروں جانوں کی قربانیاں دے کر دہشتگردی کو شکست دی ہے اور کوئی بھی فرد یا گروہ ان قربانیوں کی توہین نہیں کر سکتا۔
پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایسے عناصر کے خلاف مسلسل کارروائی کرے جو ملک کو کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قانون سب کے لیے برابر ہے اور کوئی ریاست کو بلیک میل نہیں کر سکتا۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
محمد عبداللہ آسٹن یونیورسٹی، برطانیہ میں بین الاقوامی تعلقات میں امیدوار۔ ان کی تحقیقی دلچسپیاں عالمی سلامتی، خارجہ پالیسی کے تجزیہ اور بین الاقوامی سفارت کاری کی ابھرتی ہوئی حرکیات پر مرکوز ہیں۔ وہ علمی گفتگو میں فعال طور پر مصروف ہیں اور جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست اور کثیر جہتی تعلقات پر خاص زور دینے کے ساتھ علمی پلیٹ فارمز میں حصہ ڈالتے ہیں۔
View all posts

