بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت میں اس وقت داخلی انتشار اور سیاسی بحران پوری طرح عروج پر ہے جس کی بدولت وہ نازک صورتحال سے دو چار ہے۔ عوامی بیداری کی لہر انتہا پسند مودی حکومت کے غرور، دھاندلی اور اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک بغاوت کا عندیہ دے رہی ہے۔ اپوزیشن کا احتجاج نے بھارت کے مستقبل پر سوالیہ نشان اٹھا دیے ہیں جو ظاہر کرتا ہے کہ موجودہ صورتحال محض ایک داخلی سیاسی مسئلہ نہیں بلکہ خطے کے امن و استحکام کے لیے بھی بڑی وارننگ ہے۔ بھارتی اپوزیشن جماعتیں کھل کر مودی کی متکبرانہ اور آمرانہ پالیسیوں کی شدید ناقد ہیں۔ بھارت اس وقت سیاسی اور سماجی بحران کی لپیٹ میں ہے۔ انتخابی دھاندلیوں، اقلیتوں پر تشدد، دلتوں کے استحصال اور ادارے پر قبضے کا سلسلہ نہ رکا تو بھارت بھی نیپال کی طرز پر بغاوت کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ عوامی احتجاج دن بدن بڑھ رہا ہے، اداروں پر عوام کا اعتماد نہ ہونے کے برابر ہے اور دہلی کی سڑکیں کسی بھی وقت بغاوت کے شعلوں سے دہک سکتی ہیں۔
اپوزیشن جماعتوں نے چند ہفتوں میں جو بیانات دیے ہیں وہ کسی معمولی سیاسی اختلاف کا شاخسانہ نہیں بلکہ کھلی وارننگ ہے کہ بھارت کسی بھی وقت نیپال جیسے حالات سے گزر سکتا ہے۔ کانگرس رہنما راہول گاندھی نے واضح الفاظ میں کہا کہ الیکشن کمیشن بی جے پی کا کھلونا بن چکا ہے، 2024 کے انتخابات میں کھلی دھاندلی کی گئی۔ یہ ریمارکس بھارتی جمہوریت کے گرتے ہوئے معیار کی عکاسی ہے۔ سماج وادی پارٹی کے صدر اکھیلیش یادو نے اعلان کیا کہ بی جے پی کے ہاتھوں جمہوریت کی بنیادیں ہل چکی ہیں۔ عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے اور ادارے مکمل طور پر یرغمال ہیں۔ شیوسینا (یو بی ٹی) کے سنجے راوت نے راجیہ سبھا میں کہا کہ عوام اداروں پر عدم اعتماد کر چکے ہیں اور بھارت کی سڑکیں بڑے پیمانے پر احتجاج کی لپیٹ میں آسکتی ہیں۔ کانگرس رہنما منیش تیواری نے کہا کہ بھارت خطرناک حد تک نیپال کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ سماج وادی پارٹی کے لیڈر ائی پی سنگھ نے بھی کہا کہ بی جے پی کے غرور اور دھاندلی کی وجہ سے بھارت کو نیپال جیسا بحران لاحق ہے۔
صرف وقتی نہیں بلکہ ریاست کے وجود کو چیلنج کر رہا ہے۔
گزشتہ ماہ اگست اور رواں ماہ ستمبر میں بھارت کے مختلف حصوں میں احتجاج کی لہر دیکھی گئی جو کسی بڑے عوامی ردعمل کی تیاری کا پیش خیمہ لگتی ہے۔ دہلی میں ووٹر لسٹ میں مشکوک ترامیم کے خلاف اپوزیشن نے سخت مزاحمت کی۔ کانگرس نے ملک کے طول و عرض میں ووٹ چوری کے خلاف "لوکتانتر بچاؤ مشعل مارچ” کیا جس میں مودی حکومت اور الیکشن کمیشن پر شدید نقطہ چینی کی گئی اور ووٹ چوری کے خلاف بھرپور نعرے لگائے گئے۔ پنجاب میں 2 لاکھ ملازمین اور نوائیڈا و غازی آباد میں ہزاروں اساتذہ پرانی پنشن اسکیم کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ کسانوں نے دہلی پارلیمنٹ کے سامنے انڈیا بلاک اور تلنگانہ کانگرس نے یوریا کی کمی کے خلاف بھرپور دھرنا دیا۔ بھارتی دارالحکومت کی عدالتوں میں وکلا نے پولیس کے ورچول بیان کی مخالفت کرتے ہوئے سات روزہ ہڑتال کی جس سے عدالتی امور ٹھپ ہو کر رہ گئے۔ مسیحی اور دیگر اقلیتوں نے اپنے اوپر تشدد، مظالم اور قوانین کے غلط استعمال پر بھی شدید احتجاج کیا۔ اپوزیشن لیڈروں کی گرفتاریوں کے باوجود دہلی میں بڑے بڑے جلوس نکالے گئے۔ یہ تمام احتجاج کسی ایک طبقے یا گروہ کی آواز نہیں بلکہ پورے بھارت کے عوامی اضطراب کی علامت ہے۔
ریاستی سطح پر بھی بغاوتی فضا کھل کر سامنے آرہی ہے۔ ٹنسکیا (آسام) میں موران کمیونٹی نے قبائلی حیثیت کے مطالبے پر احتجاج کیا۔ ریاست مہاراشٹر کے ضلع ناگپور میں عوام نے سمارٹ میٹرز مسترد کرتے ہوئے مظاہرہ کیا۔ ہبلی کرناٹکا میں کسانوں نے ٹی بی ڈیم کے مسائل پر دھرنا دیا۔ پنجاب کے مہالی میں اساتذہ نے "تعلیمی انقلاب کھوکھلا” کے نعرے لگاتے ہوئے احتجاج کیا۔ اڈیشہ شیر گڑا میں عوامی بند اور علاقے کو این اے سی کا درجہ دینے کے مطالبہ پر شہری سڑکوں پر امڈ آئے۔ بھارت بند تحریک میں 25 کروڑ مزدور نئے قوانین کے خلاف متحد ہو گئے۔ سب سے اہم واقعہ کرناٹک میں عید میلاد کے جلوس میں "پاکستان زندہ باد” کے نعرے تھے جس نے بھارت کی سیکولر بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
یہ دھرنے، احتجاج اور مظاہرے واضح کرتے ہیں کہ ریاستی سطح پر عوامی تحریک کسی بڑے دھماکے کی تمہید ہے اور بھارت کی بڑی جمہوریت کے دعوے کا بھانڈا پھوڑ دیا ہے۔ قومی سطح پر بغاوت کا امکان حقیقت کا روپ دھارتا جا رہا ہے۔ کھٹمنڈو کا سبق دہلی کی سڑکوں پر دہرایا جا سکتا ہے۔ اپوزیشن کا اتحاد اور عوامی دباؤ بی جے پی حکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔
بھارتی قیادت اس وقت دوراہے پر کھڑی ہے جہاں یا تو جمہوریت بحال کرے، اقلیتوں اور محروم طبقات کو ان کے حقوق دے یا پھر عوامی بغاوت کا سامنا کرے۔ اپوزیشن کی مودی حکومت پر کڑی تنقید اور عوامی دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے دہلی نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو دنیا جلدی بھارت میں بغاوت کی خبر سن سکتی ہے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ظہیرال خان ایک مضبوط تعلیمی اور پیشہ ورانہ پس منظر کے ساتھ، وہ بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتا ہے اور بڑے پیمانے پر سیکورٹی اور اسٹریٹجک امور کے ماہر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
View all posts