Nigah

یورپ کا اصل دشمن کون

nigah Europe dushman real

نیزہِ جنگ پر دنیا کی دہلیز پر تیسری عالم گیر جنگ کی دستک دی جا رہی ہے۔ جنگ کے لیے اقوامِ عالم کی نظریں دنیا کے سب سے بڑے براعظم ایشیا پر لگی ہوئی ہیں جو اصل میدانِ جنگ بننے کی توقع رکھتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ یورپ بھر میں یہ بحث جاری ہے کہ یورپ کا اصل دشمن کون ہے۔

یورپ کا ایک گروہ جو اسرائیل اور بھارت کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے، سمجھتا ہے کہ سب سے پہلے مسلمانوں کو قابو میں کرنا ہوگا۔ یہ گروہ یہ مانتا ہے کہ فلسطین کا مسئلہ، حماس، حزب اللہ، ایران کا ایٹمی پروگرام اور دہشت گردانہ کارروائیاں سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس گروہ میں شامل بھارت خود ریاستی دہشت گردی میں براہِ راست ملوث دکھائی دیتا ہے۔ حالیہ دنوں صوبہ خیبر پختونخوا سے انڈین آرمی کے حاضر سروس میجر کی امام کے روپ میں گرفتاری اور بلوچستان میں انڈین جاسوسوں اور بھارتی حمایت یافتہ دہشت گردوں کی گرفتاریاں اس کا واضح ثبوت ہیں۔ اسی طرح کینیڈا سمیت دیگر ممالک میں کئی واقعات بھارت کو عالمی دہشت گردی میں ملوث قرار دیتے ہیں۔

nigah un committee

یورپ کے دوسرے گروہ کا موقف اس سے یکسر مختلف ہے۔ یہ گروہ روس کو یورپ کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے اور اس کے خلاف یوکرین جنگ اور نیٹو کی توسیع، اقتصادی پابندیاں اور فوجی امداد اسی حکمتِ عملی کا حصہ ہیں۔ اس گروہ کے مطابق روس کو کمزور کرنا مغرب کی اولین ترجیح ہے۔

تیسرا گروہ امریکی تھنک ٹینکس پر مشتمل ہے جو واضح طور پر سمجھتا ہے کہ اصل دشمن چین ہے۔ یہ گروہ بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو، برکس کی توسیع اور ٹیکنالوجی میں چین کی برتری کو مغرب کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیتا ہے۔

دیکھا جائے تو ان تینوں گروہوں کے نقطۂ نظر دراصل ایک ہی مقصد کے ذیلی رنگ ہیں۔ مغربی سامراج طاقتیں اپنی صدیوں پر محیط بالادستی سے محروم ہو رہی ہیں اور یہ طے کر رہی ہیں کہ پہلے کس دشمن سے نمٹا جائے۔ عالمی منظر نامے پر ایک نئی حقیقت یہ بھی ہے کہ چین، روس اور مسلم ممالک مل کر ایک ملٹی پولر نظام کے قیام کے لیے کوشاں ہیں، جس میں صرف یورپ کی اجارہ داری نہ رہے بلکہ سب ممالک کا کردار شامل ہو۔

امریکہ نے مغربی دباؤ کے پیشِ نظر یوکرین کو جدید ہتھیار دینے کا فیصلہ کیا ہے جن میں ایسے میزائل بھی شامل ہیں جن کی گہرائی تک رسائی ہے۔ یورپی قیادت کا کہنا ہے کہ جنگ کا خاتمہ تب ہوگا جب روس مکمل طور پر کمزور نہ ہو جائے، اس سے ظاہر ہے کہ یوکرین جنگ مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔ اسی طرح مشرقی وسطیٰ میں بھی حالات بہتر نظر نہیں آتے اور اسرائیل دوبارہ ایران پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔

بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے کے تناظر میں امریکہ عراق میں اپنے بیسس خالی کر رہا ہے اور شام سے بھی انخلاء پر غور کر رہا ہے، جو اس بات کی نشاندہی ہے کہ اسرائیل اور ایران کے درمیان براہِ راست تصادم متوقع ہو سکتا ہے اور یہ خطہ ایک بڑی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔

سچ تو یہی ہے کہ یہ لڑائی قوموں کی نہیں بلکہ کارپوریشنز،اسلحہ ساز اداروں، بینکاروں اور چند
خاندانی طاقتوں کی جنگ ہےجو دنیا کو قابو میں رکھنے کے لیے صدیوں سے لڑی جا رہی ہے۔

بدقسمتی سے چند ہزار لوگ اقوامِ عالم کے وسائل، طاقت اور معیشت پر قابض ہیں اور ان کے نزدیک انسانی زندگیوں کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہی وجوہات ہیں جن کی بنا پر طاقت کا توازن بدل رہا ہے۔

شنگھائی تعاون تنظیم کی مضبوطی، برکس کا پھیلاؤ اور مسلم ممالک کا چین اور روس کے قریب آنا ایک نئے عالمی نظام کے قیام کی جانب واضح اشارہ ہے۔ مستقبل قریب میں دنیا ایک فیصلہ کن موڑ پر ہوگی۔ اگر ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ممالک متحد رہیں تو مغربی اجارہ داری کا خاتمہ ممکن ہوسکتا ہے، بصورتِ دیگر بینکرز دنیا کو تیسری عالم گیر جنگ میں دھکیل دیں گے۔

اس موقع پر اہم سوال یہ ہے کہ قطر براہِ راست کیا ردعمل دے گا اور عالمی برادری اس پر کیا موقف اختیار کرے گی؟ حملے کے فوراً بعد قطر کے امیر شیخ تمیم بن حمد الثانی نے ٹرمپ سے رابطہ کر کے اس کارروائی کو "سنگین جرم” اور "مجرمانہ غفلت” قرار دیا اور کہا کہ قطر اپنی خودمختاری اور قومی سلامتی کے دفاع کے لیے ہر ممکن قدم اٹھانے کا حق رکھتا ہے۔ ٹرمپ نے بھی اس حملے کی مذمت کی اور قطر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔

قطری وزیراعظم شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے پریس کانفرنس میں اس واقعے کو "ریاستی دہشت گردی” قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ اسرائیل نے ایسے ہتھیار استعمال کیے جو ریڈار سے پوشیدہ رہتے ہیں، اور امریکی حکام نے قطر کو اس حملے کی اطلاع محض دس منٹ بعد دی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کارروائی اس وقت ہوئی جب قطر امن مذاکرات میں مصروف تھا، اور اگر یہ عمل سبوتاژ تھا تو اس کی ذمہ داری اسرائیل پر عائد ہوتی ہے۔

nigah europe asia middle east maps

امریکی صدر نے بھی اسرائیل پر "اخلاقی اور قانونی حدود” توڑنے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ اس کے اقدامات خطے کو مزید عدم استحکام کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ قطر کے نزدیک اس حملے کا اصل مقصد فلسطین سے متعلق مذاکراتی عمل کو ناکام بنانا تھا۔

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ قطر کے پاس ردعمل کے لیے کون سے آپشنز موجود ہیں؟ مختصراً جائزہ یہ ہو سکتا ہے:

  1. سفارتی اقدامات: تعلقات منقطع کرنا، سفیر واپس بلانا یا سفارتی نمائندے نکالنا۔
  2. قانونی چارہ جوئی: بین الاقوامی عدالتِ انصاف یا اقوامِ متحدہ میں قانونی کارروائی اور "اسٹیٹ ٹیررزم” کی دفعات اٹھانا۔
  3. بین الاقوامی مہم: اقوامِ متحدہ، امریکہ، یورپی یونین اور علاقائی طاقتوں کے ساتھ روابط بنانا اور سیاسی دباؤ بڑھانا۔
  4. سائبر اور انٹیلی جنس ردعمل: بعض اوقات سائبر کارروائیاں یا خفیہ اقدامات بھی استعمال ہوتے ہیں۔
  5. میڈیا اور اقتصادی دباؤ: نیو میڈیا، بیلنسنگ پیغامات، یا اقتصادی پابندیاں اور بینکاری رسائی میں رکاوٹیں۔
  6. حفاظتی اقدامات اور اتحاد: دفاعی معاہدے مضبوط کرنا، عسکری اتحادیوں کے ساتھ سیکیورٹی کوآرڈینیشن بڑھانا اور داخلی دفاعی اقدامات کو مستحکم کرنا۔

قطر کے دفاعی وسائل جدید ضرور ہیں مگر اس کی قوت محدود ہے۔ اندازاً قطر کے فعال فوجی اہلکار 20 تا 25 ہزار ہوں گے اور اس کے پاس جدید طیارے جیسے رافال، ایف-15 QA، ٹائفون موجود ہو سکتے ہیں۔ فضائی دفاع میں تھاڈ اور پیٹریاٹ شامل ہیں۔

اس کے مقابلے میں اسرائیل کی فوجی طاقت بہت بڑی اور تجربہ کار ہے: فعال فوجی اہلکار 170 تا 180 ہزار کے قریب، جدید طیارے F-35, F-15IA, F-16 اور میزائل نظام جیسے آئرن ڈوم، ڈیوڈز سلنگ، آرو اس کے پاس ہیں۔ اسرائیل خطے کی سب سے بڑی عسکری قوت ہے جسے امریکہ کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔

اس تناظر میں قطر کا براہِ راست جنگی مقابلہ ممکن نہیں۔ اس لیے قطر کے اصل ہتھیار سفارتی، قانونی اور سیاسی ذرائع ہیں۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • مصنف ایک معزز میڈیا پیشہ ور ہیں جو نیشنل نیوز چینل ایچ ڈی کے چیف ایگزیکٹو اور "دی فرنٹیئر انٹرپشن رپورٹ" کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ان سے  پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔