Nigah

موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار پاکستان اور اقوام عالم کی زمہ داری

nigah climate change unga

پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی درجہ بندی میں پانچویں نمبر پر ہے پاکستان کے حوالے سے موسمیاتی تبدیلیوں کے انسانی صحت کو خطرات، غذائی اجناس کی پیداوار میں کمی، وبائی امراض کے پھیلاؤ میں اضافہ، خشک سالی، گلیشئیرز کے پگھلاؤ، سطح سمندر میں اضافے، موسم کے دورانیے میں تغیر اور شدت، سیلاب، گرمی و سردی کی شدت میں اضافہ جیسے نمایاں اثرات ہیں۔

موسمیاتی تبدیلیاں جہاں پائیدار ترقی، سماجی تفریق اور وسائل کی تقسیم میں ناانصافی کا موجب ہو سکتی ہیں وہاں ان کی وجہ سے املاک، جانوروں اور فصلوں کا نقصان، ہنگم نقل مکانی، بھوک و افلاس اور بیماریوں سے اموات جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے۔ 

رواں ماہ یو این جی اے کے 80 ویں اجلاس 2025 کو "ایک ساتھ بہتر: امن، ترقی اور انسانی حقوق کے لیے 80 سال اور اس سے زیادہ” کے موضوع کے تحت منعقد ہو رہا ہے۔ پاکستان کے لیے یہ فورم ماحولیاتی تبدیلی کو اجتماعی ذمہ داری کے سب سے فوری امتحان کے طور پر اجاگر کرنے کا ایک سنہرا موقع ہے۔

جبکہ یو این جی اے مشترکہ ذمہ داری کا مطالبہ کرتا ہے پاکستان آب و ہوا کی تبدیلی کی ناانصافی کی عکاسی کرتا ہے۔ عالمی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں 1 فیصد سے بھی کم حصہ ڈالنے کے باوجود پاکستان سب سے زیادہ کمزور دس ممالک میں شامل ہے۔

2022 کے سیلاب نے پاکستان کو شدید متاثر کیا تھا اور ملک کا ایک تہائی حصہ سیلاب میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس سیلاب سے 33 ملین افراد متاثر ہوئے جبکہ 2 ملین مکانات تباہ ہوئے۔ اسی طرح 4.4 ملین ایکڑ پر محیط فصلوں کو نقصان ہوا۔ مجموعی طور پر 7001 اموات ہوئیں اور ملک کو 30 بلین ڈالر کے معاشی نقصان کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

nigah UNGA Climate change observer guardian uk

رواں سال 2025 میں مون سون کی معمول سے زیادہ شدید بارشوں اور بادل پھٹنے والے سیلابوں نے جون کے آخر سے اب تک 800 سے زیادہ قیمتی جانیں ضائع کر دی ہیں۔ یہاں یہ امر خاص اہمیت کا حامل ہے کہ سائنسدانوں نے تصدیق کی ہے کہ موسمیاتی تبدیلی جنوبی ایشیا میں مون سون کے نمونوں کو تیز کر رہی ہے جس سے 2022 کی طرح ایک اور بڑی تباہی کے خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

ماہرین کے مطابق اس وقت پاکستان کو 50 ڈگری سیلسیس سے زیادہ درجہ حرارت کے ساتھریکارڈ توڑ گرمی کی لہروںکا سامنا ہے۔
اس شدید گرمی نے کمزور برادریوں کو متاثر کیا ہے،جہاں ہیٹ اسٹروک، پانی کی کمی اور اموات بڑھ رہی ہیں۔

ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں کی کئی وجوہات بیان کرتے ہیں۔ ان کے مطابق کوئلہ، گیس اور تیل کا استعمال بڑی وجہ ہے۔ ان سے نکلنے والا ایندھن ماحولیاتی آلودگی کا بھی سبب ہے۔ یہ ایندھن بجلی کے کارخانوں، ٹرانسپورٹ اور گھروں کو گرم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح درختوں کی بے دریغ کٹائی، پانی کا بے تحاشا استعمال، صنعتوں میں ماحول دشمن سرگرمیاں جیسے ماحول اور پانی کو آلودہ کرنے والی گیسیں بھی اسباب میں شامل ہیں۔

یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ گلیشیئر پگھلنے سے بحران گہرا ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں 7000 سے زیادہ گلیشیئرز ہیں جو قطبوں کے باہر سب سے بڑے گلیشیئر ہیں۔ یہ تیزی سے پگھل رہے ہیں اور ان کے پگھلنے سے لاکھوں لوگوں کے لیے قلیل مدتی سیلاب اور طویل مدتی پانی کی قلت پیدا ہوتی ہے۔ برادریاں جو ان دریاؤں پر انحصار کرتی ہیں ان کی زراعت، معاش اور ماحولیاتی نظام براہ راست خطرے سے دوچار ہیں۔

یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان جو اس بحران کا سبب نہیں بنا پھر بھی اس کے اثرات سے غیر متناسب طور پر دوچار ہے۔ اس لیے موافقت، لچک اور نقصان کے جواب کے لیے بین الاقوامی فنڈنگ کی فوری ضرورت پر زور دیتا ہے۔

یہ امداد نہیں بلکہ ایک عالمی ذمہ داری ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کے اسباب، اثرات اور ان سے لاحق سنگین خطرات کا مقابلہ کرنا اقوام عالم کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اس حوالے سے تمام ممالک کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ پاکستان جو خاص نشانہ بنا ہے حالیہ بارشوں اور سیلاب کی تباہ کاریوں کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ اقوام عالم کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ پاکستان کی بھرپور مالی و غذائی امداد کو یقینی بنائیں تاکہ متاثرین کی دوبارہ آبادکاری ممکن ہو سکے۔

اس کے ساتھ ساتھ یو این جی اے کو آب و ہوا کی ناانصافیوں سے نمٹنے کے لیے مشترکہ ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہئے تاکہ اقوام عالم کو درپیش اس سنگین مسئلے سے نمٹنے میں آسانی ہو اور جو ملک بھی قدرتی آفات سے متاثر ہوں ان کی بحالی و آبادکاری سب کی مشترکہ ذمہ داری ہو اور سب مل کر متاثرہ ملکوں اور ان کے عوام کی ہر قسم کی امداد بغیر کسی تفریق کے ممکن بنائیں۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر اکرام احمد

    اکرام احمد یونیورسٹی آف ساؤتھ ویلز سے بین الاقوامی تعلقات میں گریجویٹ ہیں۔ باتھ یونیورسٹی میں، جہاں ان کی تحقیق تنازعات کے حل، عالمی حکمرانی، بین الاقوامی سلامتی پر مرکوز ہے۔ ایک مضبوط تعلیمی پس منظر اور عالمی امور میں گہری دلچسپی کے ساتھ، اکرام نے مختلف تعلیمی فورمز اور پالیسی مباحثوں میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔ ان کا کام بین الاقوامی تعلقات کی حرکیات اور عصری جغرافیائی سیاسی مسائل پر ان کے اثرات کو سمجھنے کے لیے گہری وابستگی کی عکاسی کرتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔