بھارت سب سے بڑی نام نہاد جمہوریت کا دعوے دار ہے مگر جب ادیواسی برادری اپنے بنیادی آئینی اور انسانی حقوق کے لیے آواز اٹھاتی ہے تو انہیں اکثر غداری جیسے الزامات لگا کر ریاستی جبر اور بدترین تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چھتیس گڑھ اور دیگر ادیواسی اکثریتی علاقوں میں حالیہ سالوں میں ایسے کئی واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی وجہ سے بھارت کے جمہوری دعوؤں پر سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ ان واقعات میں سب سے اہم راگھو میڈیامی اور سنیتا پوتم کے کیسز ہیں جنہیں ادیواسی حقوق کی جدوجہد کے باعث ریاستی ایجنسیوں نے نشانہ بنایا۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق مشن نے ان ادیواسیوں کی گرفتاری پر سخت تشویش ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ بھارت میں آدیواسی کارکنوں کے ساتھ ہونے والا سلوک انسانی حقوق کے عالمی اصولوں اور عہد ناموں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
یہ معاملہ صرف دو افراد کا نہیں بلکہ ایک وسیع تر رجحان کی علامت ہے جہاں آدیواسی برادری کے پرامن مطالبات کو ریاست مشینری طاقت کے زور پر دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔
ہوا کچھ یوں کہ 27 فروری 2025 کو چھتیس گڑھ کے دانتے واڑا ضلع میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ جب راگھو میڈیامی جو ایک شدید حادثے کے بعد ہسپتال میں زیر علاج تھے کو نیشنل انویسٹی گیشن ایجنسی کے اہلکاروں نے زبردستی حراست میں لے لیا۔ یہ گرفتاری محض اتفاق نہیں تھی بلکہ عین اس دن عمل میں آئی جب راگھو مولواسی بچاؤ منچ (ایم بی ایم) پر پابندی کے خلاف دائر درخواست پر دستخط کرنے والے تھے۔ بعد ازاں 5 مئی 2025 کو ہائی کورٹ نے یہ درخواست خارج کر دی۔ جس سے تاثر مزید مضبوط ہوا کہ بھارتی عدلیہ بھی ادیواسی تحریک کے لیے انصاف فراہم کرنے سے قاصر ہے۔
عدالت کے احکامات کے باوجود جیل حکام نے راگھو کو ان کے زخموں کا علاج فراہم نہیں کیا۔ بارہا آپریشن کی درخواستوں کے باوجود کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا جس سے ان کی صحت مزید خراب ہو گئی۔ یہ صورتحال اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ بھارت میں آدیواسی کارکنوں کو نہ صرف آزادی سے محروم کیا جا رہا ہے بلکہ ان کے بنیادی انسانی حقوق جیسے علاج کی سہولت بھی سلب کی جا رہی ہے۔
راگھو میڈیامی چھتیس گڑھ کے ان کارکنوں میں شامل تھے جو بھارتی سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ماورائے عدالت قتل، جبری گرفتاریاں اور زمینوں کی غیر قانونی ضبطگی کے خلاف پرامن احتجاج کر رہے تھے۔ ان کی تحریک کا مقصد آدیواسی نوجوانوں کو اس بات کا شعور دینا تھا کہ وہ اپنے حقوق کے لیے جمہوری اور عوامی جدوجہد جاری رکھیں لیکن بھارتی ریاست نے ان کے اسی کردار کو بغاوت کا نام دے کر انہیں نشانہ بنایا۔ ایم بی ایم نے مقامی سطح پر بڑے پیمانے پر عوامی شعور اجاگر کیا اور حکومتی منصوبوں کے خلاف آواز بلند کی جو ادیواسی زمینوں کو بڑی کمپنیوں کے حوالے کرنے جا رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاستی ادارے انہیں قانون اور امن و امان کے لیے خطرہ قرار دے کر دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
سنیتا پوتم، ایم بی ایم کی شریک بانی اور ادیواسی خواتین کے حقوق کی سرگرم محافظ ہیں۔ 2016 سے ہی وہ پولیس کی دھمکیوں اور ہراسانی کا سامنا کر رہی ہیں۔
3 جون 2024 کو پولیس نے رائے پور میں ان کے گھر پر چھاپہ مارا اور بغیر وارنٹ انہیں گرفتار کر لیا۔ ان پر قتل، سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے اور کمیونسٹ پارٹی سے تعلق رکھنے جیسے سنگین مگر بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے۔ بعد ازاں انہیں جگدل پور جیل میں قید کر دیا گیا۔ ان کی گرفتاری کے کاغذات میں کھلے الفاظ میں لکھا گیا کہ وہ پولیس کیمپوں کی مخالفت اور ریاستی منصوبوں کے خلاف مزاحمت کرتی رہی ہیں۔ یہ حقیقت خود ظاہر کرتی ہے کہ ان پر بنائے گئے مقدمات سیاسی انتقام کے سوا کچھ نہیں۔
31 جولائی 2025 کو ان کی حراست کی مدت ختم ہونے کے باوجود وہ اب بھی جیل میں ہیں۔ جو عدالتی عمل اور انسانی حقوق کی سنگین پامالی ہے۔
راگھو میڈیامی اور سنیتا پوتم کے واقعات الگ تھلگ نہیں بلکہ ایک بڑے رجحان کا حصہ ہیں۔ بھارت میں آدیواسی تحریک کو اکثر ماؤ وادی یا علیحدگی پسند تحریکوں کے ساتھ جوڑ کر بدنام کیا جاتا ہے۔ حالانکہ ان کی زیادہ تر سرگرمیاں پرامن اور جمہوری دائرے میں ہوتی ہیں۔ ریاستی ادارے ان تحریکوں کو کچلنے کے لیے کئی حربے استعمال کرتے ہیں۔ ان پر بے بنیاد مقدمات اور جھوٹے الزامات لگا کر بغیر وارنٹ گرفتار کر لیا جاتا ہے اور انہیں طویل قید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے ذریعے ہراسانی کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں۔ ادیواسی علاقوں میں فوجی کیمپ قائم کر کے خوف و ہراس بھی پھیلایا جاتا ہے۔ اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ مقامی برادری اپنی زمینوں، وسائل اور ثقافت کے تحفظ کے حق سے محروم ہو جاتی ہے۔
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق مشن نے نہ صرف راگھو اور سنیتا کے کیس پر تشویش ظاہر کی ہے بلکہ بھارت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ آدیواسی برادری کے حقوق کا احترام کرے۔ بھارت نے مختلف بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں جن میں شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی عہد بھی شامل ہے۔ لیکن ان پر عمل درآمد نہ ہونا عالمی برادری کے لیے تشویش کا باعث ہے۔ یورپی یونین اور کئی بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی ان واقعات کو بھارتی جمہوریت کے منفی پہلو کے طور پر اجاگر کیا ہے۔
راگھو میڈیامی اور سنیتا پوتم کے کیس بھارت میں آدیواسی تحریک کی اصل تصویر پیش کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی برادری کے حقوق کے لیے پرامن جدوجہد کا راستہ اپنایا۔ مگر ریاست نے ان کی آواز کو غداری اور بغاوت کا نام دے کر دبانے کی کوشش کی۔ یہ رجحان نہ صرف بھارتی جمہوریت کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ پورے خطے میں انسانی حقوق کے لیے بھی منفی مثال قائم کرتا ہے۔ اگر بھارت خود کو واقعی ایک جمہوری اور سیکولر ریاست کا دعویٰ برقرار رکھنا چاہتا ہے تو اسے آدیواسی برادری کے ساتھ انصاف کرنا ہوگا۔ جھوٹے مقدمات ختم کرنا ہوں گے اور ان کارکنوں کو فوری رہائی دینی ہوگی۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر حمزہ خان نے پی ایچ ڈی کی ہے۔ بین الاقوامی تعلقات میں، اور یورپ سے متعلق عصری مسائل پر توجہ مرکوز کرتا ہے اور لندن، برطانیہ میں مقیم ہے۔
View all posts