جنوبی ایشیا کی پیچیدہ جغرافیائی سیاست ایک نئے خطرناک موڑ پر آگئی ہے۔ بھارت خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے اور خطے میں عدم استحکام پیدا کرکے اسے انتہا پسندی کی آماجگاہ بنانے کے درپے ہے۔ ریاستی دہشتگردی میں ملوث بھارت نے افغان طالبان کو گود لے کر خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے اور بھارت انتہا پسند روابط کو اسٹریٹجک دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کررہا ہے۔
بھارت طالبان بیانیہ کی آڑ میں نہ صرف پاک افغان تعلقات کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے بلکہ خطے میں پراکسی تنازعات کو ہوا دے کر شدت پسند گروہوں کو منظم اور طاقتور بنانے اور ان انتہا پسندوں کو معمول کے مطابق پیش کرکے میڈیا ڈپلومیسی کے پردے میں خطے کو غیر مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
قارئین کرام ا
بھارت طالبان گٹھ جوڑ تیزی سے خطے میں ایک ایسی قوت کے طور پر سامنے آچکا ہے جو خطے میں عدم استحکام پیدا کر سکتا ہے۔ اس حوالے سے طالبان کے ایک رہنما انس حقانی کے بھارت میں دیئے گئے ایک انٹرویو نے نئی دہلی کے دوہرے عزائم کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔
طالبان رہنما انس حقانی وہ بدنام زمانہ شخص ہے جو پاکستان کا سخت ترین مخالف، امریکہ مخالف اور بھارت نواز موقف رکھنے والا شخص ہے اور اسے وسیع پیمانے پر را کا ایجنٹ سمجھا جاتا ہے۔ را کا یہ ایجنٹ انس حقانی نئی دہلی کے اسٹریٹجک مفادات کا تحفظ کرتا ہے اور ہمیشہ پاکستان کے خلاف زہر افشانی کرتا ہے۔
بھارت جو خود کو دہشت گردی کا شکار اور افغانستان میں انتہا پسندی کا ناقد ظاہر کرتا ہے لیکن بھارت کی گود میں بیٹھ کر انس حقانی کا لیا گیا انٹرویو دراصل ایک خطرناک اسٹریٹجک یوٹرن کو بے نقاب کرتا ہے۔
طالبان کی بربریت، خواتین پر مظالم اور عالمی جہادی نیٹ ورکس سے روابط پر آواز اٹھانے کی بجائے اب بھارت کی گودی میڈیا اور عوام انہیں غلط فہمی کا شکار اداکار کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
بھارتی ایجنٹ انس حقانی کے انٹرویو کو گودی میڈیا نے جس انداز میں پیش کیا ہے اس پر بھارتی عوام کے ایک محدود حلقہ اثر نے دیکھا، سنا اور تبصرے بھی کئے۔ بھارتی ناقدین کے تبصروں میں طالبان کے حق میں خوشی اور اس بات کا اعتراف جھلکتا ہے کہ بھارتی گودی میڈیا نے طالبان کو غلط طور پر پیش کیا ہے۔ یہ اچانک ہمدردی اور قبولیت کا رجحان اس بات کا واضح اشارہ ہے کہ بھارت دانستہ طور پر طالبان کو جائز اور معتبر ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کا یہ رجحان کئی حوالوں سے ایک خطرناک رجحان ہے۔
دراصل بھارتی پلیٹ فارمز پر طالبان کو نمایاں جگہ دینے کا مقصد انہیں خطے میں نرمی کے ساتھ دوبارہ جائز حیثیت دلوانے کی ناکام کوشش ہے کیونکہ عالمی سطح پر ان کی دہشتگردی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور انتہا پسندانہ طرز حکمرانی پر شدید تحفظات پائے جاتے ہیں۔
قارئین محترم ا
بھارت کی طالبان نواز حکومت کے ساتھ خفیہ قربتیں شراکت داریوں کے امکانات کو بڑھا رہی ہیں جو انتہا پسند گروپوں کو نئی زندگی اور جنوب ایشیا میں ڈھال فراہم کر سکتی ہیں۔ اس طرح کے روابط علاقائی سیکورٹی ڈھانچوں کو کمزور اور عسکریت پسند نیٹ ورکس کو مزید جری بنا سکتے ہیں۔
یہاں یہ امر بھی خصوصی طور پر قابل ذکر ہے کہ بھارت دوسروں پر دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کا الزام لگاتا ہے لیکن خود طالبان سے کھلے عام قربتیں بڑھا رہا ہے جو اس امر کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت کی انسداد دہشتگردی پالیسی موقع پرستی اور جیو اسٹریٹجک عزائم پر مبنی ہے نہ کہ اصولوں پر۔
دراصل طالبان پر بڑھتا ہوا بھارت نواز جھکاؤ دوہری حکمت عملی کا مظہر ہے جس کا مقصد صرف پاکستان کو دباؤ میں لانے کی کوشش ہی نہیں بلکہ بھارت افغانستان کی طالبان حکومت اور رہنماؤں کو استعمال کرکے خطے میں چین کے اثر و رسوخ کو بھی کم کرنا چاہتا ہے اور اس بھارتی سازش کا بنیادی مقصد ہی خطے میں عدم استحکام ہے۔
انس حقانی کا بھارتی گود میں بیٹھ کر دیا جانے والا انٹرویو محض ایک ڈیجیٹل گفتگو نہیں بلکہ یہ وہ ریڈ فلیگ ہے جو ظاہر کرتا ہے کہ بھارت سافٹ پاور اور میڈیا ڈپلومیسی کے پردے میں خطے کو عدم استحکام کا شکار کرنے کے درپے ہے۔
خطے کے تمام ممالک کو ایک ہو کر بھارت افغان گٹھ جوڑ کی بیخ کنی کرنا ہوگی ورنہ بھارت انتہا پسند بیانیوں کو ہتھیار بنا کر جنوب ایشیا کو عدم استحکام سے دوچار کرکے خطے کو انتہا پسندی کی آماجگاہ بنا دے گا۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر محمد منیر ایک معروف اسکالر ہیں جنہیں تحقیق، اکیڈمک مینجمنٹ، اور مختلف معروف تھنک ٹینکس اور یونیورسٹیوں میں تدریس کا 26 سال کا تجربہ ہے۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد کے ڈیپارٹمنٹ آف ڈیفنس اینڈ سٹریٹیجک سٹڈیز (DSS) سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
View all posts