بھارت جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلاتا ہے اس وقت شدید سیاسی اور سماجی بحران میں مبتلا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں نے کھلے عام خبردار کیا ہے کہ اگر انتخابی دھاندلی، اقلیتوں پر تشدد، دلتوں کے استحصال اور ریاستی اداروں پر حکومتی کنٹرول کا سلسلہ نہ رکا تو ملک کسی بڑے انتشار کی لپیٹ میں آسکتا ہے۔ عوامی احتجاج بڑھ رہا ہے، اداروں پر اعتماد تیزی سے ختم ہو رہا ہے اور دہلی کی سڑکیں کسی بھی وقت بغاوت کی شعلہ فشانی کا منظر پیش کر سکتی ہیں۔
اپوزیشن لیڈروں کے بیانات نے سیاسی فضا کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ راہول گاندھی نے لوک سبھا میں کہا "الیکشن کمیشن بی جے پی کا ہتھیار بن چکا ہے۔ 2024 کے انتخابات میں کھلی دھاندلی ہوئی ہے”۔
اکھیلیش یادو نے اعلان کیا "جمہوریت کی بنیاد ہل چکی ہے، ادارے مکمل طور پر یرغمال ہیں، عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے”۔
سنجے راوت (شیو سینا) نے خبردار کیا ہے کہ عوام کا اداروں پر اعتماد ختم ہو گیا ہے اور ملک بڑے پیمانے پر احتجاج کی لپیٹ میں آ سکتا ہے۔
یہ بیانات اس حقیقت کو آشکار کرتے ہیں کہ بھارت خطرناک حد تک نیپال کے نقش قدم پر چل رہا ہے۔ جیسا کہ کانگریس کے منیش تیوری اور سماج وادی پارٹی کے آئی پی سنگھ نے کھل کر کہا "اپوزیشن کا یہ اتفاق رائے بغاوتی فضا کو مزید تقویت دیتا ہے”۔
اگست اور ستمبر 2025 میں بھارت کے مختلف شہروں میں بڑے پیمانے پر احتجاج سامنے آئے جنہوں نے بھارتی حکومت کی جڑیں ہلا دی ہیں۔ دہلی ووٹر لسٹ ترمیم کے خلاف اپوزیشن کا دھرنا اور ملک گیر سطح پر انتخابی دھاندلیوں کے خلاف کانگریس کا "لوکتانتر بچاؤ مشعل مارچ”۔
پنجاب میں دو لاکھ ملازمین اور ہزاروں اساتذہ نے پرانی پنشن اسکیم کے لیے سڑکوں پر نکل کر حکومت کو چیلنج کیا۔ انڈیا بلاک اور تلنگانہ کانگریس نے کسانوں کے مسائل پر زبردست احتجاج کیا۔ دہلی پولیس کے اختیارات کے خلاف ساٹھ روزہ ہڑتال، مسیحی اور دیگر اقلیتوں کے بڑے اجتماعات مذہبی قوانین کے غلط استعمال اور مظالم کے خلاف۔
یہ سب واقعات اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ عوام میں غصہ شدت اختیار کر رہا ہے اور احتجاج محض وقتی نہیں بلکہ منظم مزاحمت میں ڈھل رہا ہے۔
مرکزی حکومت کے ساتھ ساتھ ریاستی سطح پر بھی مزاحمت بڑھ رہی ہے۔ تنکسیا (آسام) میں موران کمیونٹی قبائلی حیثیت کے مطالبے پر سڑکوں پر نکلی۔ ناگپور (مہاراشٹر) میں عوام نے سمارٹ میٹرز کے خلاف زبردست مظاہرے کیے۔ ہبلی (کرناٹکا) میں کسانوں نے ڈیم سے متعلق مسائل پر احتجاج کیا۔ مہالی (پنجاب) میں اساتذہ نے "تعلیمی انقلاب کھوکھلا” کے نعرے لگائے۔ شیرگڑا (اڈیشہ) کے عوام نے اپنے علاقہ کو این اے سی کا درجہ دینے کا مطالبہ کیا۔ بھارت بھر میں 25 کروڑ مزدور نئے قوانین کے خلاف متحد ہو چکے ہیں۔
کرناٹک میں عید میلاد کے جلوس میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگنے پر ملک بھر میں ہلچل مچ گئی۔ یہ تحریکیں بتاتی ہیں کہ بغاوتی فضا صرف دہلی تک محدود نہیں بلکہ پورے بھارت میں پھیل چکی ہے۔
بی جے پی ان تمام احتجاجوں کو محض سیاسی ہتھکنڈا قرار دیتی ہے لیکن اس کی پالیسیاں غرور اور اکثریتی بالادستی پر مبنی دکھائی دیتی ہیں۔ عوامی مطالبات پر توجہ دینے کے بجائے طاقت کا استعمال، گرفتاریوں اور میڈیا کنٹرول کے ذریعے مسائل دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ رویہ حالات کو مزید بگاڑ رہا ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت میں جمہوریت کی جڑیں ہل چکی ہیں۔
- اداروں کی غیر جانبداری پر سوالات: الیکشن کمیشن اور عدلیہ پر حکومتی دباؤ کے الزامات بڑھ رہے ہیں۔
- احتجاج کی شدت: کسانوں، مزدوروں، طلبہ اور اقلیتوں کی شرکت نے اسے ملک گیر تحریک بنا دیا ہے۔
- نیپال سے مماثلت: نیپال میں عوامی بغاوت نے بادشاہت کو الٹ دیا تھا۔ دہلی میں بھی ایسا منظر ابھر سکتا ہے۔
یہ تمام عوامل مل کر ایک ایسے بحران کو جنم دے رہے ہیں جو صرف ایک سیاسی چیلنج نہیں بلکہ نظام کی بقا کا سوال ہے۔
بھارتی عوام مہنگائی، بیروزگاری، اقلیتوں پر حملوں اور اداروں کی بے بسی سے نالاں ہیں۔ نوجوان نسل خود کو جمہوری نظام سے محروم محسوس کر رہی ہے۔ مزدور نئے لیبر قوانین سے پریشان ہیں اور کسان فصلوں کی قیمتوں اور قرضوں کے بوجھ سے تنگ ہیں۔ اساتذہ اور ملازمین پنشن اور تنخواہوں کے مسائل پر برسر احتجاج ہیں۔ اقلیتیں اپنے مذہبی اور سماجی حقوق کے تحفظ کے لیے میدان میں ہیں۔
یہ اجتماعی غصہ کسی بھی وقت بڑے پیمانے پر بغاوت کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ دنیا بھر میں بھارت کو سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے مگر حالیہ واقعات نے عالمی برادری کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ امریکہ اور یورپ میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھارت کی صورتحال پر رپورٹس جاری کر رہی ہیں۔ اقوام متحدہ نے بھی احتجاج پر طاقت کے استعمال پر نکتہ چینی کی ہے۔ عالمی سرمایہ کار بھارت کے غیر یقینی حالات سے پریشان ہیں۔ اگر احتجاج بغاوت میں بدل گیا تو بھارت کی معیشت، عالمی سرمایہ کاری اور سفارتی حیثیت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
نیپال کی مثال بھارت کے سامنے ہے جہاں عوامی طاقت نے پورے سیاسی نظام کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ بھارت میں بھی حالات اس طرف جا رہے ہیں۔ عوام کا صبر ختم ہو رہا ہے، اپوزیشن متحد ہو رہی ہے، احتجاج بڑھتے جا رہے ہیں اور اداروں پر اعتماد تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ یہ تمام علامات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ بغاوت کا امکان محض خدشہ نہیں بلکہ حقیقت میں بدلنے کے قریب ہے۔
بھارت اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ اگر بی جے پی حکومت نے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی نہ کی، اپوزیشن کو سننے اور عوامی مطالبات پر غور کرنے کے بجائے طاقت کا راستہ اپنایا تو ملک کو نیپال طرز کی عوامی بغاوت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اصلاحات، مکالمہ اور سب کے لیے مساوی انصاف ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے باعث بھارت اپنے جمہوری ڈھانچے کو بچا سکتا ہے۔ بصورت دیگر بغاوت نہ صرف حکومت بلکہ پورے سیاسی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
محمد عبداللہ آسٹن یونیورسٹی، برطانیہ میں بین الاقوامی تعلقات میں امیدوار۔ ان کی تحقیقی دلچسپیاں عالمی سلامتی، خارجہ پالیسی کے تجزیہ اور بین الاقوامی سفارت کاری کی ابھرتی ہوئی حرکیات پر مرکوز ہیں۔ وہ علمی گفتگو میں فعال طور پر مصروف ہیں اور جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست اور کثیر جہتی تعلقات پر خاص زور دینے کے ساتھ علمی پلیٹ فارمز میں حصہ ڈالتے ہیں۔
View all posts