نریندر مودی کی 75 ویں سالگرہ پر بھارتی میڈیا اور بی جے پی کا پروپیگنڈا یہ تھا کہ بھارت کو مودی کی سخت ضرورت ہے اور وہی واحد رہنما ہیں جو ملک کو مستقبل میں لے جا سکتے ہیں۔ مگر یہ جشن ایک تلخ حقیقت پر پردہ ڈالنے کی ناکام کوشش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مودی جمہوریت کے محافظ نہیں بلکہ اس کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ ان کی سیاست اداروں کو کمزور، معاشرتی تانے بانے کو پارہ پارہ اور بھارت کے آئین کو بے اثر کرنے پر مبنی رہی ہے۔
مودی کی سیاسی زندگی کے آغاز سے ان کے دامن پر خون کے دھبے نمایاں ہیں۔ 2002 کے گجرات فسادات میں جب وہ ریاست کے وزیراعلٰی تھے، 2000 سے زائد افراد مارے گئے جن میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔ ہزاروں خاندان بے گھر ہوئے اور برادریاں گھیٹوز میں دھکیل دی گئیں۔ اسی پس منظر میں مودی کو دنیا نے قصاب گجرات کہا۔ امریکہ اور برطانیہ جیسے ممالک نے برسوں تک ان پر ویزہ پابندی عائد کئے رکھی۔
افسوسناک طور پر یہی خونی پس منظر ان کے سیاسی عروج کا زینہ بنا۔ آر ایس ایس اور بی جے پی نے اس فسادی بیانیے کو ہندوتوا کی طاقتور علامت بنایا اور مودی دہلی کے تخت تک پہنچ گئے۔ بی جے پی کی نظریاتی ماں آر ایس ایس ہمیشہ اس اصول پر قائم رہی کہ کوئی بھی رہنما 75 برس کی عمر کے بعد ریٹائر ہوگا۔ ایل کے ایڈوانی اور مرلی منوہر جوشی جیسے بزرگ لیڈرز کو اسی اصول کے تحت کنارے لگا دیا گیا۔ مگر مودی کے معاملے میں یہ اصول روند ڈالا گیا۔
یہ رویہ ثابت کرتا ہے کہ ادارے، نظریات اور پارٹی ڈسپلن سب مودی کی شخصیت پرستی کے آگے بے بس ہو گئے ہیں۔ وہ اصول جو سب پر لاگو ہوتے تھے اب صرف ایک شخص کی خاطر بے معنی ہو چکے ہیں۔ مودی کی قیادت میں بھارت کا چہرہ دنیا کے سامنے مسخ ہو چکا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی، اقلیتوں کے ساتھ امتیاز، میڈیا پر قدغن اور آئینی اداروں کو کچلنے کی پالیسی ان کے اقتدار کا نمایاں پہلو ہے۔ جمہوریت کے بجائے آمریت کا غلبہ بڑھتا جا رہا ہے۔
مودی کے بھارت میں اقلیتوں اور کمزور طبقات پر حملے معمول بن چکے ہیں۔ مسلمانوں کو گاؤ رکشا کے نام پر لنچ کیا گیا۔ عیسائیوں پر چرچوں اور سکولوں میں حملے ہوئے۔ دلتوں کو ذلت اور عدم انصاف کا سامنا کرنا پڑا۔ سی اے اے اور این آر سی جیسے قوانین مذہبی امتیاز کو خصوصی قانونی حیثیت دیتے ہیں۔ بلڈوز پالیسی کے تحت مسلمانوں کے گھروں کو بغیر مقدمے کے گرایا گیا۔ بھارت کی اصل پہچان کثرت میں وحدت تھی لیکن مودی نے اس بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا۔
کشمیر جو کبھی بھارت کے وفاقی ڈھانچے کی علامت تھا اب ایک قید خانہ بن چکا ہے۔ آرٹیکل 370 کو ختم کر کے وادی کی خود مختاری چھین لی گئی۔ پوری وادی کو فوجی چھاؤنی میں بدل دیا گیا۔ صحافی، سیاستدان اور کارکن بغیر مقدمے کے قید کر دیے گئے۔ انٹرنیٹ شٹ ڈاؤنز نے تعلیم اور معیشت کو مفلوج کر دیا۔ یہ سب جمہوریت کے وعدے نہیں بلکہ جبر اور قبضے کی پالیسی ہے۔
مودی حکومت نے اداروں کو ہتھیار بنا کر اپوزیشن کو کچل دیا ہے۔ ای ڈی اور جیسے ادارے سیاسی مخالفین کو جیل میں ڈالنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ یو اے پی اے کے تحت رہنماؤں کو برسوں بغیر مقدمے کے قید رکھا جاتا ہے۔ میڈیا پر چھاپے مارے جاتے ہیں۔ صحافیوں کو غدار قرار دیا جاتا ہے۔ عالمی انڈیکس میں بھارت آزادی صحافت کے اعتبار سے نچلی ترین سطح پر ہے۔
فوج جو کہ ملک کا غیر جانبدار ادارہ ہے مودی کے دور میں سیاسی مہم کا حصہ بنا دی گئی۔ بالاکوٹ حملے کو انتخابی نعرے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ فوجیوں کی قربانیوں کو ووٹ بٹورنے کے لیے ایندھن بنایا گیا۔ دفاعی جدیدیت رکی ہوئی ہے۔ مگ 21 جیسے پرانے طیارے اب بھی استعمال میں ہیں۔ مودی نے دفاعی کمزوری کو چھپانے کے لیے قوم پرستی کے نعروں کا سہارا لیا۔
مودی نے بھارت کو پانچ کھرب ڈالر کی معیشت بنانے کا وعدہ کیا۔ لیکن نتیجہ برعکس نکلا۔ بے روزگاری 45 سال کی بلند ترین سطح پر ہے۔ کسان قرضوں میں ڈوبے ہوئے ہیں اور ہزاروں خودکشیاں کر چکے ہیں۔ نوٹ بندی اور جی ایس ٹی نے چھوٹے کاروبار تباہ کر دیئے۔ بھارت بھوک انڈیکس میں 111 ویں نمبر پر جا چکا ہے۔ کرونی کیپیٹلزم کے تحت اڈانی اور امبانی جیسے سرمایہ دار امیر سے امیر تر ہوتے گئے۔
مودی کے دور میں بھارت کی عالمی ساکھ کمزور پڑ گئی ہے۔ کینیڈا، امریکہ اور برطانیہ کے ساتھ تعلقات قتل کی سازشوں کے الزامات پر کشیدہ ہیں۔ جنوبی ایشیا کے ہمسایہ ممالک بھی بھارت سے نالاں ہیں۔ وی ڈیم انسٹیٹیوٹ نے بھارت کو انتخابی آمریت قرار دیا ہے۔ بھارت جو کبھی ترقی پذیر دنیا کا لیڈر سمجھا جاتا تھا اب اقلیتوں پر جبر کے سبب تنقید کی زد میں ہے۔ مودی کے بھارت میں آئین کی حکمرانی ختم ہو چکی ہے۔ یو اے پی اے اور پی ایس اے جیسے قوانین مخالفین کے خلاف ہتھیار ہیں۔ عدالتیں حکومتی دباؤ کے سامنے بے بس ہیں۔ پارلیمنٹ ربڑ سٹیمپ میں تبدیل ہو گئی ہے۔ اپوزیشن کے درجنوں ایم پی معطل ہو چکے ہیں۔ خوف کی فضا نے جمہوری آزادیوں کو ختم کر دیا ہے۔ بھارتی ترقی اور پائیدار ترقیاتی اہداف (STGs) میں بھی ناکام ہے۔ بھوک اور غربت کے اعداد و شمار خطرناک ہیں۔ صنفی مساوات اور ماحولیاتی اہداف میں بھارت پیچھے ہے۔ اقوام متحدہ اور ہیومن رائٹس واچ بارہا بھارت کو تنقید کا نشانہ بنا چکے ہیں۔
مودی نے اپنے پورے سیاسی سفر میں قانون توڑا، اقلیتوں کا نشانہ بنایا اور جمہوری اداروں کو کمزور کیا۔ آر ایس ایس کے اصول کو روند کر انہوں نے ثابت کیا کہ ان کے نزدیک نہ قانون کی اہمیت ہے، نہ روایت اور نہ آئین کی۔
آج بھارت ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑا ہے۔ اگر مودی مزید برسر اقتدار رہتے ہیں تو اس کے نتائج یہ ہوں گے۔
سیکولر جمہوریت کی جگہ ہندو اکثریتی ریاست۔
وفاقی ڈھانچے کا زوال۔
معیشت میں مزید ناہمواری اور کرونی کیپیٹلزم۔
آزادیاں ختم کرنے والی آمریت۔
بھارت کے عوام کے سامنے انتخاب واضح ہے۔ مودی کا آمرانہ راستہ یا جمہوری تبدیلی کا راستہ۔ مستقبل کا انحصار اسی فیصلے پر ہے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر مجدد نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ تین ماسٹرز ڈگریوں اور اسٹریٹجک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کے حامل ہیں۔ وہ پاکستان ایئر فورس میں ۳۳ سال خدمات انجام دینے والے سابق کمیشنڈ آفیسر بھی رہ چکے ہیں۔
View all posts