Nigah

گلوبل ساؤتھ کے بارے میں بھارت کے دوہرے معیار

nigah گلوبل ساؤتھ کے بارے میں بھارت کے دوہرے معیار

اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80 ویں اجلاس میں بھارتی وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے پہلی مرتبہ گلوبل ساؤتھ میٹ کی میزبانی کی۔ بظاہر یہ ایک بڑی سفارتی کامیابی دکھائی گئی، جس میں بھارت نے خود کو ترقی پذیر دنیا کا وکیل اور رہنما ثابت کرنے کی کوشش کی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا بھارت واقعی گلوبل ساؤتھ کی آواز ہے یا یہ محض ایک بیانیہ ہے جس کے پیچھے مغرب نواز پالیسیوں کا سایہ چھپا ہوا ہے؟ پاکستان کے نزدیک حقیقت یہی ہے کہ بھارت کے بیانات اور اس کے عملی اقدامات کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔

جے شنکر نے اپنے خطاب میں بار بار یہ کہا کہ ترقی پذیر دنیا کے حقوق اور توقعات کو مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کثیرالجہتی نظام میں انصاف، شفافیت اور اصلاحات کی ضرورت پر زور دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ خوبصورت الفاظ عملی طور پر کہاں جھلکتے ہیں؟

حقیقت یہ ہے کہ بھارت کی خارجہ پالیسی طاقتور شمالی ممالک خصوصاً امریکہ، فرانس اور اسرائیل کے ساتھ بڑھتے ہوئے دفاعی اور اقتصادی معاہدوں کے گرد گھومتی ہے۔ اس پس منظر میں بھارت کا گلوبل ساؤتھ کی وکالت کرنا محض سیاسی منافقت لگتا ہے۔ بھارت بظاہر ترقی پذیر ممالک کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے مگر عملی سطح پر وہ اپنے قومی مفاد کو ترجیح دیتا ہے۔ مثال کے طور پر، جے شنکر نے اپنی تقریر میں عالمی تجارتی نظام میں مساوات اور شفافیت کی بات کی لیکن دوسری جانب بھارت نے حالیہ برسوں میں امریکہ کے ساتھ اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدے کیے۔ اسرائیل کے ساتھ مشترکہ میزائل ڈیفنس اور ڈرون ٹیکنالوجی کے سودے بھی اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ یہ سب ظاہر کرتا ہے کہ بھارت کے لیے گلوبل ساؤتھ ایک نعرہ ہے جبکہ اصل مقصد اپنی عالمی حیثیت کو مغربی نظام کے اندر محفوظ بنانا ہے۔ ساؤتھ-ساؤتھ تعاون اور پیداوار کی جمہوریت کے نعرے بھارت کے لیے محض سفارتی ہتھیار ہیں۔

ساؤتھ-ساؤتھ تعاون اور پیداوار کی جمہوریت کے نعرے بھارت کے لیے محض

بھارت دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ترقی پذیر دنیا کے ساتھ متوازن اقتصادی تعلقات چاہتا ہے لیکن حقیقت میں اس کے تجارتی معاہدے شمالی سرمایہ اور مغربی ٹیکنالوجی پر انحصار کرتے ہیں۔ افریقی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے مگر اصل سرمایہ کاری اور اسٹریٹجک معاہدے امریکہ اور یورپ کے ساتھ ہوتے ہیں۔

جے شنکر بار بار اقوامِ متحدہ کی اصلاحات کی بات کرتے ہیں، خصوصاً سلامتی کونسل میں زیادہ نمائندگی کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن ان کے اس مطالبے کا مقصد گلوبل ساؤتھ کے دروازے کھولنا نہیں بلکہ بھارت کی مستقل نشست کو یقینی بنانا ہے۔ یہ طرزِ عمل ظاہر کرتا ہے کہ بھارت اصلاحات کے نام پر اپنے لیے جگہ بنا رہا ہے جبکہ باقی ترقی پذیر دنیا کو محض تالی بجانے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔

پاکستان کے نزدیک سب سے بڑا تضاد یہی ہے کہ بھارت عالمی فورمز پر انصاف اور برابری کی بات کرتا ہے لیکن عملی طور پر امریکہ اور اسرائیل کے قریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے تبادلے، مشترکہ فوجی مشقیں اور اربوں ڈالر کے دفاعی سودے بھارت کے اصل رجحانات کو ظاہر کرتے ہیں۔ کیا یہ وہی ساؤتھ-ساؤتھ یکجہتی ہے جس کا بھارت دعویٰ کرتا ہے؟ ہرگز نہیں۔

جے شنکر نے اپنی تقریر میں شفاف اقتصادی طرزِ عمل کا حوالہ دیا مگر حقیقت یہ ہے کہ بھارت کے بڑے اقتصادی منصوبے اکثر غیر شفاف اور مغربی سرمایہ کاری پر انحصار کرتے ہیں۔ بڑے انفراسٹرکچر منصوبوں اور توانائی کے سودوں میں مقامی پارٹنرز کو اکثر نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ یہ طرزِ عمل اس دعوے کے بالکل برعکس ہے جس میں بھارت خود کو پیداوار کی جمہوریت کا علمبردار کہتا ہے۔

بھارت کی خارجہ پالیسی کا سب سے نمایاں پہلو یہی ہے کہ وہ بلند و بانگ دعووں اور عملی اقدامات کے درمیان فاصلہ رکھتا ہے۔

وہ عالمی انصاف اور مساوات کی زبان بولتا ہے مگر اصل میں طاقت کی سیاست میں گم ہے۔ پاکستان کے نزدیک بھارت کی پالیسی کا مقصد گلوبل ساؤتھ کے ساتھ یکجہتی نہیں بلکہ مغرب کی گود میں بیٹھ کر اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانا ہے۔

پاکستان ہمیشہ سے گلوبل ساؤتھ کے حقیقی مفادات کی وکالت کرتا آیا ہے۔ چاہے وہ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہو یا قومی سطح پر، پاکستان نے ہمیشہ منصفانہ کثیرالجہتی، پائیدار ترقی اور عالمی انصاف کی بات کی ہے۔ پاکستان سمجھتا ہے کہ بھارت کا دوہرا معیار نہ صرف ترقی پذیر دنیا کو نقصان پہنچاتا ہے بلکہ عالمی سطح پر ایک غیر متوازن نظام کو مزید مضبوط کرتا ہے۔

جے شنکر کے حالیہ بیانات ایک کسوٹی کی طرح ہیں جن سے بھارت کی اصل حقیقت عیاں ہو گئی ہے۔ ایک طرف وہ گلوبل ساؤتھ کے لیے انصاف اور مساوات کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں، دوسری طرف وہ خود مغربی نظام کے اندر اپنی جگہ مستحکم کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ تضاد بھارت کی خارجہ پالیسی کو محض منافقت اور دوغلے پن کا نمونہ بنا دیتا ہے۔

پاکستان کے نزدیک گلوبل ساؤتھ کے مسائل کا حل صرف نعروں اور بیانات میں نہیں بلکہ حقیقی یکجہتی، شفاف تعلقات اور مساوی مواقع میں ہے۔ بھارت جب تک مغربی طاقتوں کی گود میں بیٹھا رہے گا، اس کے دعوے محض کھوکھلے رہیں گے۔ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ گلوبل ساؤتھ کے ممالک بھارت کے بیانات اور اقدامات کے درمیان اس تضاد کو پہچانیں اور حقیقی یکجہتی کے لیے ایسے رہنماؤں کی طرف دیکھیں جو قول و فعل میں یکساں ہوں، نہ کہ ایسے ملک کی طرف جو ایک طرف انصاف کی بات کرے اور دوسری طرف طاقت کے کھیل میں گم ہو جائے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر مزمل خان

    مزمل خان سیاست اور بین الاقوامی معاشیات میں گہری دلچسپی کے ساتھ، ان کا تعلیمی کام اس بات کی کھوج کرتا ہے کہ کس طرح بنیادی ڈھانچہ اور جغرافیائی سیاسی حرکیات تجارتی راستوں اور علاقائی تعاون کو متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر جنوبی اور وسطی ایشیا میں۔ موزممل شواہد پر مبنی تحقیق کے ذریعے پالیسی مکالمے اور پائیدار ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے پرجوش ہے اور اس کا مقصد تعلیمی انکوائری اور عملی پالیسی سازی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔