پاکستان اس وقت ماحولیاتی تبدیلی کے سب سے سخت اثرات برداشت کرنے والے ممالک میں سے ایک ہے۔ گرمی کی شدید لہریں لوگوں کی صحت کو براہِ راست متاثر کرتی ہیں، برفانی تودے تیزی سے پگھلنے لگے ہیں جس سے دریاؤں میں غیر متوقع بہاؤ آتا ہے، اور شہروں میں پانی کے بحران نے لاکھوں گھرانوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ یہ سب صرف موسم یا ماحولیات کی خبریں نہیں ہیں۔ یہ مسائل خوراک کی فراہمی، معیشت کے استحکام اور انسانی سلامتی سے جڑ کر زیادہ پیچیدہ اور خطرناک بن جاتے ہیں۔
ایسی صورتحال میں پاکستان اکیلا ان چیلنجز سے نمٹنے کی سکت نہیں رکھتا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کے ساتھ تعاون کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات روایتی طور پر سلامتی اور سیاست پر مرکوز رہے ہیں، مگر اب وقت ہے کہ ماحولیات کو بھی اسی اہمیت دی جائے۔ اگر اس سمت میں قدم اٹھایا گیا تو اس کے اثرات نہ صرف لوگوں کی روزمرہ زندگی میں نظر آئیں گے بلکہ وسیع تر سیکیورٹی تعلقات میں بھی۔
امریکا کے پاس سرمایہ، تحقیق اور ٹیکنالوجی ہے، جبکہ پاکستان کو فوری حل اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ اگر یہ دونوں چیزیں اکٹھی ہو جائیں تو کئی مسائل کو قابو میں لایا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر زراعت میں ایسے جدید طریقے اپنائے جا سکتے ہیں جو کم پانی میں زیادہ پیداوار دیں۔ اس سے کسانوں کی روزی بہتر ہوگی اور خوراک کے بحران کو کم کیا جا سکے گا۔ اسی طرح شہروں میں پانی کے انتظام کے لیے ڈیجیٹل نظام متعارف کرائے جائیں تو غیر ضروری ضیاع روکا جا سکتا ہے اور ضرورت مند آبادی تک پانی پہنچایا جا سکتا ہے۔
شہری ڈھانچے کو مضبوط بنانا بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ اگر شہر ایسے بنائے جائیں جو گرمی کی شدت یا بارشوں کے جھٹکوں کو برداشت کر سکیں تو آنے والی نسلیں زیادہ محفوظ ماحول میں جی سکیں گی۔ یہ محض ترقیاتی منصوبے نہیں، یہ لوگوں کے تحفظ اور ملک کے استحکام کی ضمانت ہیں۔
یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ماحولیات اب صرف "ترقیاتی ایجنڈا” نہیں رہا۔ اگر خوراک کی کمی بڑھتی ہے، پانی کم ہوتا ہے یا زمین کم زرخیز بنتی ہے تو نتیجہ لازمی طور پر سماجی بے چینی اور سیاسی عدم استحکام ہوگا۔
پاکستان اور امریکا دونوں کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ اپنے تعلقات کو نئی بنیاد پر استوار کریں۔ اگر ماحولیاتی تعاون کو دوطرفہ تعلقات کا مرکزی ستون بنایا جائے تو اس کے فوائد صرف آج کے نہیں بلکہ آنے والے کئی عشروں کے لیے ہوں گے۔ یہ ایک ایسا راستہ ہے جس پر چل کر نہ صرف ماحول بہتر ہوگا بلکہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد اور شراکت داری بھی مضبوط ہوگی۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
محمد سلیم برطانیہ میں مقیم مصنف اور محقق ہیں جن کی اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ایک مضبوط علمی بنیاد ہے۔ اس کا کام طاقت اور حکمت عملی کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتا ہے۔ وہ جغرافیائی سیاست، علاقائی معاملات، اور آج کی دنیا کو تشکیل دینے والے نظریات کے لیے ایک باریک عینک لاتا ہے۔
View all posts