اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی (UNGA) کے اجلاس دنیا بھر کے ممالک کے لیے اپنی پالیسیوں، ترجیحات اور عالمی کردار کو اجاگر کرنے کا اہم پلیٹ فارم سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن جہاں کچھ ریاستیں اس موقع کو امن، ترقی اور تعاون کے پیغام کے لیے استعمال کرتی ہیں، وہیں بعض ممالک اسے محض پروپیگنڈہ مشینری کے طور پر بروئے کار لاتے ہیں۔ بھارت بھی انہی ممالک میں شامل ہے۔
سال 2025 میں بھارتی این جی او ’’آر ایس کے ایس‘‘ نے کتاب "دی سول آف بھارت" کی رونمائی کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ بھارت امن، اتحاد اور انسانی حقوق کا علمبردار ہے۔ حقیقت میں یہ تقریب ایک ’’پرفارمنس ڈپلومیسی‘‘ تھی جس کا مقصد دنیا کی آنکھوں پر پردہ ڈال کر نئی دہلی کے مکروہ چہرے کو خوشنما نقاب پہنانا تھا۔
کتاب میں بار بار بھارت کے ’’سیکولر‘‘ اور ’’آئینی‘‘ ڈھانچے کو امن و ہم آہنگی کی ضمانت کے طور پر پیش کیا گیا۔ دعویٰ یہ کیا گیا کہ بھارت مختلف مذاہب، قومیتوں اور ثقافتوں کا حسین امتزاج ہے جہاں سب کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔ لیکن یہ دعویٰ حقیقت کے بالکل برعکس ہے۔
مودی سرکار کی ہندوتوا پالیسیوں نے سیکولرزم کو نہ صرف کمزور کیا بلکہ دفن کر دیا ہے۔ مسلمانوں پر اجتماعی حملے روز کا معمول بن چکے ہیں۔ دہلی فسادات، اتر پردیش میں ’’بلڈوزر پالیسی‘‘ اور حجاب پر پابندی کے واقعات اس منافقت کا ثبوت ہیں۔ عیسائی برادری کے چرچ جلائے جا رہے ہیں، پادریوں پر حملے کیے جاتے ہیں اور مذہبی اجتماعات کو زبردستی روکا جاتا ہے۔ دلتوں کے خلاف امتیازی قوانین اور معاشرتی جبر بھارت کے ’’سیکولر چہرے‘‘ کی اصل تصویر سامنے لاتے ہیں۔ یوں ’’دی سول آف بھارت‘‘ کا یہ دعویٰ محض ایک جھوٹا نقاب ہے، جسے عالمی برادری پر جمایا جا رہا ہے تاکہ ہندوتوا کے تشدد کو چھپایا جا سکے۔
کتاب میں بھارت نے اپنی ’’دہشت گردی کے خلاف جدوجہد‘‘ کو نمایاں کر کے عالمی ہمدردی سمیٹنے کی کوشش کی۔ خاص طور پر پہلگام حملہ کا حوالہ دے کر بھارت نے خود کو مظلوم اور پاکستان کو ’’قصوروار‘‘ دکھانے کی پالیسی اپنائی۔ یہ کوئی نئی حکمت عملی نہیں۔ بھارت ہمیشہ سے ہر سانحے کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا رہا ہے۔ کشمیر میں فوجی قبضے کو جائز ٹھہرانے کے لیے، اقلیتوں پر جبر کو چھپانے کے لیے اور عالمی برادری کو گمراہ کرنے کے لیے دہلی حکومت ہر حملے کا رخ اسلام آباد کی طرف موڑ دیتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر بھارت واقعی دہشت گردی کا شکار ہے تو پھر اس کی اپنی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کی پاکستان اور ہمسایہ ممالک میں سرگرمیاں کس کھاتے میں جائیں گی؟ دراصل ’’دہشت گردی کا بیانیہ‘‘ بھارت کے ہاتھ میں ایک ایسا ہتھیار ہے جس کے ذریعے وہ اپنے داخلی جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔
کتاب کی تقریب رونمائی میں بھارت کو انسانی حقوق کا محافظ اور علمبردار بنا کر پیش کیا گیا۔ یہ دعویٰ اس وقت مضحکہ خیز لگتا ہے جب عالمی اداروں کی رپورٹس کا مطالعہ کیا جائے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ بارہا یہ واضح کر چکے ہیں کہ بھارتی جیلوں میں قیدی ماورائے عدالت قتل، تشدد اور غیر انسانی سلوک کا شکار ہوتے ہیں۔ صحافیوں کو گرفتار کرنا، آزادیِ اظہار کو کچلنا اور میڈیا پر قدغن لگانا بھارتی حکومت کی پالیسی کا حصہ بن چکا ہے۔ مذہبی اقلیتوں کے خلاف ریاستی سرپرستی میں تشدد اور امتیازی قوانین بھارتی معاشرے کو حصوں بخروں میں بانٹ رہے ہیں۔ یوں ’’دی سول آف بھارت‘‘ کے ذریعے جو تصویر دکھائی گئی، وہ دراصل ’’بلڈوزر پالیسی‘‘، میڈیا بلیک آؤٹ اور مذہبی تعصب جیسے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش تھی۔
کتاب کی تقریب میں خواتین کے حقوق اور ثقافتی ورثے کے تحفظ جیسے موضوعات کو بڑے زور و شور سے اجاگر کیا گیا۔ لیکن یہ صرف نمائشی اقدامات تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت میں خواتین کے خلاف جرائم کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ ریپ کیسز، ہراسانی اور گھریلو تشدد کے واقعات روزانہ خبروں کا حصہ ہیں۔ ورثے کے نام پر بھارت مسلم شناخت کو مٹانے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ بابری مسجد کا انہدام اور گیانواپی مسجد پر تنازع اس پالیسی کی واضح مثالیں ہیں۔ یوں ثقافتی سفارت کاری بھارت کے ہاتھ میں ایک ایسا پردہ ہے، جس کے پیچھے مذہبی منافرت اور اقلیتی شناخت کو مٹانے کی سازشیں چھپائی جاتی ہیں۔
کتاب کے ذریعے بھارت نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ خطے میں امن و اتحاد کا علمبردار ہے۔ لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ بھارت کا ریکارڈ ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک علاقائی غنڈہ ہے۔ پاکستان میں دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی، بلوچستان میں مداخلت اور ’’را‘‘ کے خفیہ نیٹ ورکس اس کے شواہد ہیں۔ نیپال، سری لنکا اور مالدیپ میں سیاسی مداخلت کے ذریعے بھارت نے ہمیشہ خطے کو عدم استحکام سے دوچار کیا ہے۔ بنگلہ دیش اور میانمار میں بھی بھارت کی مداخلت کے شواہد بارہا سامنے آئے ہیں۔ یوں ’’عالمی امن‘‘ کے نعروں کے پیچھے بھارت کا اصل کردار جارحیت، تخریب اور بالادستی کا ہے۔
کتاب "دی سول آف بھارت” کی لانچ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے پلیٹ فارم پر دراصل ایک منظم پروپیگنڈہ مہم تھی۔ اس کا مقصد بھارت کو ایک مہذب، سیکولر اور امن پسند ریاست کے طور پر پیش کرنا تھا، جبکہ حقیقت میں وہ ہندوتوا انتہا پسندی، آمریت اور انسانی حقوق کی پامالیوں کا گڑھ ہے۔ دنیا کو اس ’’کلچرل شو پیس‘‘ سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے۔
بھارت کی کوشش ہے کہ وہ عالمی برادری کے سامنے اپنی شبیہ کو بہتر بنائے۔ لیکن یہ کوشش زیادہ دیر کامیاب نہیں ہو سکتی۔ جھوٹ، فریب اور نمائشی اقدامات وقتی طور پر تاثر بدل سکتے ہیں۔ لیکن زمینی حقائق ہمیشہ سامنے آ جاتے ہیں۔ جنرل اسمبلی میں کتاب کی لانچ بھارت کی انہی کوششوں کی تازہ مثال تھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا دنیا اس پروپیگنڈہ کو سچ مان لے گی یا پھر حقیقت کا سامنا کرے گی؟
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
انیس الرحمٰن ایک مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو اس وقت پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ اردو میں وہ بین الاقوامی تعلقات اور عالمی مسائل میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں، اکثر ان موضوعات پر بصیرت انگیز تجزیے لکھتے ہیں۔ ای میل: