آزاد جموں و کشمیر قربانیوں کی لازوال داستانوں اور پاکستان کے ساتھ مضبوط اور گہرے رشتے کے ساتھ منسلک ہے لیکن چند برسوں میں احتجاجی سیاست اور مصنوعی تحریک میں شدت آ گئی ہے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی (جے اے اے سی) نے بظاہر عوامی مسائل اجاگر کرنے کا دعویٰ کیا مگر اس کے احتجاجی انتظامات میں ترقیاتی منصوبوں کو نقصان پہنچایا اور عوام کی روزمرہ زندگی کو بھی مفلوج کر دیا۔ اب سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ کمیٹی واقعی عوامی مفادات کی ترجمان ہے یا کسی خفیہ ایجنڈے کی آلہ کار ہے۔
جے اے اے سی کی احتجاجی تحریکوں کے نتیجے میں آزاد کشمیر میں ہڑتالوں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع ہے۔ سڑکوں کی بندش نے تجارتی سرگرمیوں کو تباہ کیا، سکول اور کالج بند ہونے سے طلبہ کی تعلیم متاثر ہوئی جبکہ ہسپتالوں تک رسائی مشکل ہونے سے مریضوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ معاشی نقصان کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سیاحت جو آزاد کشمیر کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، احتجاجی سیاست کے سبب بری طرح متاثر ہوئی۔ غیر ملکی اور ملکی سیاح سیکیورٹی اور سہولتوں کے فقدان کے باعث آمد سے گریز کرنے لگے، جس نے ہزاروں مقامی افراد کو بے روزگار کر دیا۔
پاکستان نے آزاد کشمیر کے لیے اربوں روپے کے ترقیاتی منصوبے شروع کر رکھے ہیں تاکہ تعلیم، صحت، بجلی اور انفراسٹرکچر میں بہتری لائی جا سکے مگر جے اے اے سی کے احتجاجوں اور ہڑتالوں نے ان منصوبوں کی تکمیل کو شدید متاثر کیا۔ یہ صورتحال عوامی مفاد میں نہیں بلکہ براہ راست عوام دشمنی کے زمرے میں آتی ہے۔ جے اے اے سی کے لیڈرز اپنی سیاسی ساکھ بنانے کے لیے عوامی مسائل کو بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔ ان کی حیثیت نہ تو رجسٹرڈ ہے اور نہ ہی ان کے پاس کسی قسم کی عوامی مینڈیٹ کی سند موجود ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب آزاد کشمیر کا ایک باقاعدہ سیاسی و انتظامی ڈھانچہ موجود ہے تو پھر ایک غیر رجسٹرڈ اور غیر منتخب گروہ کو عوام کے نمائندے بننے کا کس نے حق دیا۔
عوامی سطح پر یہ شکوک موجود ہیں کہ جے اے اے سی بیرونی قوتوں کے اشارے پر متحرک تو نہیں جو آزاد کشمیر میں بدامنی اور انتشار پیدا کرنا چاہتی ہیں۔ تاریخ گواہ ہے دشمن قوتیں ہمیشہ کشمیر کے امن کو بگاڑنے کی کوشش کرتی رہی ہیں تاکہ پاکستان کو دباؤ میں رکھا جا سکے۔
پاکستان اور آزاد کشمیر کی حکومتیں ہمیشہ عوامی مسائل کے حل کے لیے بات چیت پر یقین رکھتی ہیں۔ کشمیر کے مسائل کے حل کے لیے دونوں حکومتیں عملی اقدامات کر رہی ہیں لیکن جے اے اے سی کے رویے نے ان مسائل کو حل کرنے کی بجائے مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ احتجاجی سیاست کا نقصان براہ راست عوام کو پہنچتا ہے جبکہ مسائل کے حل کے لیے صرف مذاکرات اور آئینی راستہ ہی بہتر طریقہ ہے۔
پاکستان کا موقف بڑا واضح ہے کہ آزاد کشمیر کے عوام کے دکھ درد اور مسائل ہمارے اپنے ہیں، ان کے لیے ہر ممکن وسائل فراہم کیے جا رہے ہیں لیکن عوام دشمن سیاست کے ذریعے ترقی کے راستے مسدود کرنا کسی صورت قبول نہیں۔ حکومت پاکستان سمجھتی ہے کہ ایکشن کمیٹی جیسی غیر ذمہ دار تحریکیں عوام کے مسائل میں اضافے کے علاوہ دشمن کے ایجنڈے کو تقویت دے رہی ہیں۔ آزاد کشمیر کی عوام یہ پوچھنے پر مجبور اور حق بجانب ہے کہ جے اے اے سی نے اب تک عوامی مسائل کے حل کے لیے کون سا عملی اور مثبت قدم اٹھایا۔ ہڑتالوں اور دھرنوں سے عوام کو کیا فائدہ پہنچا۔ اگر بجلی، تعلیم یا صحت کے مسائل تھے تو ان کے لیے سیاسی اور آئینی طریقے کیوں اختیار نہ کیے گئے۔ کمیٹی کی فنڈنگ کہاں سے ہو رہی ہے، اس کا احتساب کون کرے گا۔ ان سوالات کے جواب ایکشن کمیٹی کے پاس نہیں، جس سے یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ ایکشن کمیٹی اصل میں کسی خفیہ ایجنڈے کا حصہ ہے۔ دشمن قوتیں جو پاکستان کو اندرونی محاذوں پر الجھانے کی کوشش میں رہتی ہیں، آزاد کشمیر میں انتشار پیدا کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ یہ ایجنڈا دراصل پاکستان کے خلاف ایک غیر اعلانیہ جنگ ہے جس میں عوام کو بطور ہتھیار استعمال کیا جا رہا ہے۔
بلکہ پاکستان کے ساتھ مل کر آئینی اور ادارہ جاتی راستے سے حل ہو سکتی ہیں۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام ایکشن کمیٹی جیسے غیر ذمہ دار پلیٹ فارمز کو مسترد کریں اور اپنی توانائیاں مثبت ترقیاتی عمل میں لگائیں۔
جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے احتجاجوں نے آزاد کشمیر کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچایا ہے۔ تعلیم، صحت، معیشت اور ترقیاتی منصوبے سب متاثر ہوئے ہیں۔ یہ کمیٹی نہ تو عوامی مینڈیٹ رکھتی ہے اور نہ ہی عوامی مسائل کے حقیقی حل میں کوئی کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستان کا موقف یہی ہے کہ عوام دشمن سیاست کو ترک کر کے صرف اور صرف آئینی، جمہوری اور تعمیری راستہ اپنایا جائے تاکہ آزاد کشمیر کو امن و ترقی کی راہ پر ڈالا جا سکے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر سید حمزہ حسیب شاہ ایک تنقیدی مصنف اور تجزیہ کار ہیں جو بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتے ہیں، خاص طور پر ایشیا اور جغرافیائی سیاست پر توجہ دیتے ہیں۔ انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ اردو میں اور علمی اور پالیسی مباحثوں میں فعال طور پر حصہ ڈالتا ہے۔