اقوام متحدہ انسانی حقوق کونسل کے 60 ویں اجلاس میں بھارت کا مکروہ اور سیاہ چہرہ ایک مرتبہ پھر دنیا کے سامنے آشکارہ ہو گیا۔ بھارت جو خود کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر پیش کرتا ہے در حقیقت انسانی حقوق کی پامالیوں کا ایک بڑا چیمپین ہے۔ سوسائٹی فار ڈویلپمنٹ اینڈ کمیونٹی ایمپاورمنٹ (ایس ڈی سی ای) نامی ایک عالمی این جی او نے اجلاس میں انکشاف کیا کہ تامل ناڈو میں ڈی ایم کے حکومت کے دوران ریاستی پشت پناہی کے ساتھ سینکڑوں ماحولیاتی کارکنوں، انسانی حقوق کے علمبرداروں اور وکلا کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ دوسری طرف یورپ میں مقیم کشمیری ڈائسپورا نے جنیوا کے بروکن چیئر پر ایک طاقتور احتجاجی ایکسپوزیشن کا انعقاد کر کے عالمی برادری کو ایک بار پھر یاد دلایا کہ بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں جاری ہیں۔ ان دونوں انکشافات اور مظاہروں نے بھارت کے مکروہ چہرے کو اقوامِ عالم کے سامنے بے نقاب کرتے ہوئے عالمی احتساب کی ضرورت پر زور دیا۔
ایس ڈی سی ای کے اجلاس میں یو این ایچ آر سی کے بیان نے بھارت کے جنوبی ریاستی ڈھانچے میں چھپے اندھے جبر پر روشنی ڈالی۔ تامل ناڈو میں ڈی ایم کے حکومت کے زیر سایہ ریاستی سرپرستی میں انسانی حقوق کے کارکنوں کو منظم طریقے سے قتل کیا گیا۔ ان افراد میں وہ لوگ شامل تھے جو ماحولیاتی تحفظ، مقامی زمینوں کی لوٹ مار کے خلاف آواز بلند کر رہے تھے یا سماجی انصاف کے لیے سرگرم تھے۔ یہ انکشاف بھارت کے اندرونی تضادات کو عیاں کرتا ہے۔ ایک طرف بھارت عالمی سطح پر انسانی حقوق اور جمہوریت کا علمبردار کے طور پر خود کو پیش کرتا ہے، جب حقیقت یہ ہے کہ اس کے اپنے شہریوں کو بنیادی حقوق سے محروم کر کے خوف و ہراس کی فضا میں دھکیل دیا گیا ہے۔ تامل ناڈو کی صورتحال اس بات کی واضح دلیل ہے کہ بھارت میں نہ صرف مقبوضہ کشمیر بلکہ دیگر ریاستوں میں بھی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں معمول بن چکی ہیں۔
تامل ناڈو میں ماحولیاتی کارکنوں کو نشانہ بنائے جانے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بھارت میں کارپوریٹ مفادات کو ریاستی مشینری کے ساتھ ملا کر چلایا جاتا ہے۔ بڑے بڑے صنعتی منصوبے، زمینوں پر قبضے اور ماحول دشمن پالیسیوں کے خلاف جو بھی آواز بلند کرتا ہے اسے یا تو جیل میں ڈال دیا جاتا ہے یا پھر خاموش کر دیا جاتا ہے۔ یہی ریاستی جبر بھارت کی نام نہاد جمہوریت کی حقیقت ہے۔ جنیوا میں بروکن چیئر پر منعقد ہونے والی کشمیری ڈائسپورا کی ٹینٹ ایکسپوزیشن اور پوسٹر ڈسپلے نے دنیا کو یاد دلایا کہ مقبوضہ کشمیر بھارت کے زیر قبضہ ایک ایسا خطہ ہے جہاں انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں معمول بن چکی ہیں۔ کشمیری عوام 70 دہائیوں سے زائد بھارتی فوج کے جبر، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور خواتین کی بے حرمتی جیسے سنگین جرائم کا سامنا کر رہے ہیں۔
خاص طور پر 5 اگست 2019 کے بعد جب بھارت نے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو یکطرفہ طور پر منسوخ کیا، مقبوضہ وادی کشمیر کو دنیا کی سب سے بڑی جیل بنا دیا گیا۔ لاکھوں فوجی تعینات کر کے کشمیری عوام کی روزمرہ زندگی کو یرغمال بنایا گیا۔ جینوا میں احتجاج کرنے والے کشمیریوں نے عالمی برادری کو یہ پیغام دیا کہ
ان کے پوسٹرز اور ایکسپوزیشن میں ماورائے عدالت قتل، پیلٹ گنز سے معذور کیے جانے والے نوجوان اور جبری طور پر بے گھر کیے گئے خاندانوں کی کہانیاں دنیا کو ہلا دینے کے لیے کافی تھیں۔
یو این ایچ آر سی اجلاس میں پیش کیے گئے شواہد اور یورپ میں کشمیری احتجاجوں نے اس حقیقت کو مزید اجاگر کر دیا کہ بھارت کا انسانی حقوق کا ریکارڈ انتہائی بھیانک ہے۔ تامل ناڈو میں ریاستی جبر اور مقبوضہ کشمیر میں فوجی تسلط، دونوں واقعات بھارت کے اس دوہرے معیار کو نمایاں کرتے ہیں کہ اندرونِ ملک اقلیتوں اور مظلوم طبقات پر قہر ڈھایا جا رہا ہے جبکہ بیرونی دنیا میں جمہوریت اور سیکولرزم کا ڈھنڈورا پیٹا جاتا ہے۔
یہ وہی بھارت ہے جو آج بھی عالمی فورمز پر دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کرتا ہے لیکن خود ریاستی دہشت گردی کا سب سے بڑا مرتکب ہے۔ کشمیروں پر ڈھائے جانے والے مظالم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اور اب تامل ناڈو کے انکشافات نے بھارت کی اصلیت کو مزید بے نقاب کر دیا ہے۔ ان شواہد اور مظاہروں کے بعد عالمی برادری پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھارت کو کٹہرے میں لائے۔ اگر دنیا واقعی انسانی حقوق کے تحفظ کی دعویدار ہے تو پھر اسے کشمیری عوام اور بھارت کے اندر مظلوم شہریوں کے حق میں کھڑا ہونا ہوگا۔
اقوامِ متحدہ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ تامل ناڈو اور مقبوضہ کشمیر دونوں میں آزاد بین الاقوامی تحقیقات کرائی جائیں تاکہ بھارت کی ریاستی مشینری کے تحت ہونے والے مظالم کا پردہ چاک کیا جا سکے۔ عالمی طاقتوں کا بھارت پر اقتصادی اور سفارتی دباؤ انسانی حقوق کی پامالیوں کو روکنے میں مدد دے سکتا ہے۔ عالمی عدالتِ انصاف اور دیگر بین الاقوامی اداروں کو ان متاثرین کو انصاف دلانے کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہیے۔
تامل ناڈو میں انسانی حقوق کے کارکنوں کے قتل عام سے لے کر مقبوضہ کشمیر میں جاری ریاستی دہشت گردی تک بھارت دنیا کے سامنے شرمندگی کا باعث بنا ہوا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری صرف بیانات دینے کے بجائے عملی اقدامات کرے۔ بھارت کو احتساب کی کٹہرے میں لا کر مظلوم عوام کو انصاف فراہم کرنا انسانیت کی بقا اور عالمی امن کے لیے ناگزیر ہے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
مصنف ایک معزز میڈیا پیشہ ور ہیں جو نیشنل نیوز چینل ایچ ڈی کے چیف ایگزیکٹو اور "دی فرنٹیئر انٹرپشن رپورٹ" کے ایگزیکٹو ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ان سے پر رابطہ کیا جاسکتا ہے ۔
View all posts