چند ماہ قبل آپریشن بنیان المرصوص میں عبرت ناک شکست کے بعد بھارت کی سیاسی و فوجی اسٹیبلشمنٹ اپنی ہزیمت مٹانے کے لیے ہرزہ سرائی اور گیدڑ بھبکیوں پر اتر آئی ہے۔ تاہم پاک فوج کے ترجمان نے واضح پیغام دیا ہے کہ اگر کوئی ایڈونچر کیا گیا تو اس کا ہولناک جواب دیا جائے گا۔ یہ محض الفاظ نہیں بلکہ دفاعی قابلیت اور قومی عزم کی عکاسی ہے۔ موجودہ تناؤ کے تناظر میں پاک فوج کا ردِ عمل طاقت کے توازن اور جوہری حقیقتوں کے پیش نظر فیصلہ کن ہوگا۔
آئی ایس پی آر نے کہا کہ بھارت کا بیانیہ پورے عالمی منظر نامے میں بے نقاب ہو چکا ہے۔ محض بیانات کی سطح پر دھمکیاں دینے والا فریق اب منطقی و سفارتی سطح پر کمزور ہے، اور یہی کمزوری خطے میں غیر ضروری انتشار کا سبب بن سکتی ہے۔ ایسے بیانات جو جارحیت کی وکالت یا پروجیکشن کرتے ہیں، جنوبی ایشیا میں سنگین بحران کا سبب بن سکتے ہیں۔ پاک فوج نے بارہا واضح کیا ہے کہ اگر جارحیت ہوئی تو پاکستان پیچھے نہیں رہے گا۔ ہمارا جواب تیز، فیصلہ کن اور تباہ کن ہوگا، ایک ایسا حملہ جو طاقت کو باز رکھنے کے لیے لازم اور ضروری ہے۔
دو ایٹمی طاقتوں کے مابین کسی بھی سطح کی کشیدگی خطے کے علاوہ عالمی سلامتی کے لیے خطرناک ہے۔ آئی ایس پی آر نے تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی کارروائیوں نے دو ایٹمی قوتوں کو جنگ کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہی باتیں ہمیں اس حقیقت کی یاد دہانی کراتی ہیں کہ اب کوئی بھی جغرافیائی چال، پروپیگنڈا یا محدود عسکری کارروائی محض سرحدی تنازع تک محدود نہیں رہے گی۔ اس کے وسیع نتائج ہوں گے۔ اس لیے نہ صرف فوجی تیاری بلکہ سفارتی اور بین الاقوامی سطح پر موقف کی تجدید بھی لازم ہے تاکہ غلط فہمیوں کو قابو میں رکھا جائے۔
پاک فوج کے ترجمان کے مطابق بھارت کئی دہائیوں سے مظلومیت کا کارڈ کھیلتا آیا ہے مگر اب وہ بیانیہ عالمی محاذ پر اپنی صداقت کھو چکا ہے۔ عالمی سطح پر بھارت کی افواہوں اور الزامات کے خلاف جوابی بیانیے نے اسے سفارتی تنہائی کی راہ پر دھکیل دیا ہے۔ اسی وجہ سے علیحدگی پسند تحریکیں، بیرونی ممالک میں دہشت گردانہ کارروائیاں اور داخلی عدم استحکام کی خبریں زور پکڑتی نظر آتی ہیں۔ اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پاکستان نے اپنے موقف کو مؤثر انداز میں دنیا کے سامنے رکھا اور بھارت کے الزامات کو رد کر کے عالمی رائے عامہ میں شفافیت پیدا کی۔
پاکستان نے بھارتی ذہنیت کو مدنظر رکھ کر جواب کا نیا نارمل نظام قائم کیا جو فیصلہ کن اور لامحدود ہچکچاہٹ کے بغیر واضح ردِ عمل کی ضمانت دے گا۔ یہ بات واضح کرنی ضروری ہے کہ ڈیٹرینس کا مقصد حملے کو روکنا ہے، دشمن کو سوچنے پر مجبور کرنا کہ اس کی ہرزہ سرائی یا اشتعال انگیزی کے نتائج ناقابل قبول ہوں گے۔ دفاعی تیاری میں جو قوتیں، ٹیکنالوجی اور استعداد شامل ہیں وہ کسی جارحانہ خواہش کی تعبیر نہیں بلکہ قومی حفاظت اور شہریوں کے تحفظ کے لیے ناگزیر ہیں۔
پاک فوج کے ترجمان نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ بھارت کی حالیہ کارروائیاں خطے میں عدم استحکام کا باعث بن سکتی ہیں۔ پہلے آبی جارحیت، پھر آپریشن سندور جیسی فوجی کارروائیاں اور سفارتی و اقتصادی محاذ پر شکست، یہ تمام پہلو بھارت کی حکمتِ عملی میں تیزی سے بڑھتی ہوئی اور خطرناک غلطیوں کو عیاں کرتے ہیں۔
اس کے علاوہ بیرون ملک مقیم بھارتی عناصر کے اقدامات جو بعض ممالک میں تشویش کا باعث بنتے ہیں، عالمی سطح پر بھارت کی ساکھ کو متاثر کر چکے ہیں۔ چنانچہ بھارت عالمی اعتبار میں توہین آمیز حد تک کمزور پڑ چکا ہے، جس کا فائدہ پاکستان نے اپنے شواہد اور موقف کے ذریعے اٹھایا ہے۔
آئی ایس پی آر نے واضح اشارہ دیا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردی میں بھارتی سہولت کار اور ایجنٹس سرگرم ہیں۔ ریاستی ادارے اس معاملے کو پوری سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ سیکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارت کو ہینڈل کرنا جانتے ہیں، اگر ضرورت پڑی تو اس کی طبیعت دوبارہ ٹھیک کرنے کے لیے موزوں جواب دیا جائے گا۔ یہ ضروری ہے کہ یہ بات عوامی سطح پر سمجھائی جائے کہ یہ اعلان داخلی سلامتی کے لیے کیا گیا ہے تاکہ بھارتی مداخلت کے خطرات کم کیے جا سکیں اور مقامی سطح پر منظم ردِ عمل کو بروئے کار لایا جائے۔
جب ریاستیں اپنے دفاع کا عزم کرتی ہیں تو انہیں بین الاقوامی قوانین، انسانی ہمدردی اور اخلاقی حدود کو بھی ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ پاک فوج کا موقف جہاں طاقت اور عزم کا مظہر ہے، وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ کسی بھی قسم کی کارروائی عالمی قوانین، اخلاقی اور سیاسی دائرے میں کھڑی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ دفاعی پیغامات کے ساتھ ساتھ سفارتی محاذ کو بھی پاکستان نے مضبوط کیا تاکہ کسی بھی غلط تشریح یا یکطرفہ عسکری اقدام سے بچا جا سکے۔
موجودہ کشیدگی میں سب سے اہم عنصر عوامی یکجہتی اور بلند حوصلہ ہے۔ آئی ایس پی آر کے بیانات میں جو وضاحت اور عزم دیکھا گیا وہ قومی مزاحمت، قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ریاستی حکمتِ عملی کے ساتھ ہم آہنگی پر مشتمل ہے۔ چنانچہ میڈیا، سیاسی قیادت اور سول اداروں کو بھی ملک کی سلامتی کے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے عمل کرنا ہوگا تاکہ دشمن کی ہرزہ سرائی کا جواب اسی طاقت سے دیا جائے جو قابلِ دفاع اور ضروری ہو۔
آئی ایس پی آر کے متواتر بیانات ایک واضح حکمتِ عملی کی عکاسی کرتے ہیں کہ پاکستان دفاعی تیاری میں اتنا مضبوط ہے کہ کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دے سکے۔ مگر ساتھ ہی پاکستان بین الاقوامی ضوابط اور اخلاقی حدود کو بھی مدنظر رکھتا ہے۔ بھارت کے غیر ذمہ دارانہ بیانیے پر تشویش بجا ہے مگر اس کا حل محض لہو گرم کرنا نہیں بلکہ سیاسی، سفارتی اور دفاعی محاذوں کو مربوط رکھ کر دشمن کی غلطیوں سے فائدہ اٹھانا ہے۔
خطے میں امن کا حقیقی ضامن وہی ہے جو طاقت اور حکمت کو اکٹھا کرے، یہی پیغام پاک فوج نے واضح انداز میں دیا ہے۔
پاکستان کا موقف روزِ اول سے واضح ہے کہ پاکستان امن کا خواہاں مگر دفاع میں بلا سمجھوتہ، جارح کے خلاف فیصلہ کن اور قومی سالمیت کے تحفظ کے لیے ہر دم تیار ہے۔ دنیا کو یہ سمجھنا چاہیے کہ خطے کا استحکام دھمکی آمیز بیانات سے نہیں بلکہ عزم، احتساب اور شفاف سفارتی رویے سے قائم رہے گا۔
معرکہ حق میں پاکستان نے بھارت کی ایسی مرمت کی کہ دنیا دنگ رہ گئی۔ بھارتی قیادت کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین ہونی چاہیے کہ پاکستان کسی بھی ایڈونچر ازم کا بھرپور جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اور اگر بھارت نے کوئی ایسی غلطی کی تو اس کا ہولناک جواب دیا جائے گا جو تیز، فیصلہ کن اور تباہ کن ہوگا۔ بھارت اپنے لڑاکا طیاروں کا ملبہ نہ بھولے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
مزمل خان سیاست اور بین الاقوامی معاشیات میں گہری دلچسپی کے ساتھ، ان کا تعلیمی کام اس بات کی کھوج کرتا ہے کہ کس طرح بنیادی ڈھانچہ اور جغرافیائی سیاسی حرکیات تجارتی راستوں اور علاقائی تعاون کو متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر جنوبی اور وسطی ایشیا میں۔ موزممل شواہد پر مبنی تحقیق کے ذریعے پالیسی مکالمے اور پائیدار ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے پرجوش ہے اور اس کا مقصد تعلیمی انکوائری اور عملی پالیسی سازی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔
View all posts
