دنیا اس وقت ایک نازک دوراہے پر کھڑی ہے۔ ایک طرف روس کی یوکرین میں مسلسل جارحیت جاری ہے، اور دوسری طرف بھارت جیسی بڑی جمہوریت روسی تیل کی خریداری کے ذریعے اس جنگی مشین کو ایندھن فراہم کر رہی ہے۔ یورپی یونین کے سفیر برائے بھارت نے حالیہ بیان میں واضح کیا کہ بھارت کے روسی تیل پر بڑھتے ہوئے انحصار اور زاپاد فوجی مشقوں میں شمولیت نے یورپی سلامتی پر سنگین خطرات پیدا کر دیے ہیں۔ بھارت جو کبھی غیر جانبدار پالیسی پر فخر کرتا تھا، اب ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں اس کی توانائی کی ترجیحات عالمی اصولوں، مغربی اتحاد اور جمہوری اقدار سے ٹکرا رہی ہیں۔
یوکرین پر روسی حملے کے بعد مغربی دنیا نے ماسکو پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کیں تاکہ اس کی جنگی طاقت کو کمزور کیا جا سکے۔ لیکن بھارت نے اس موقع کو مالی فائدے کے لیے استعمال کیا۔ 2023 کے اوائل سے بھارت نے روسی خام تیل کی درآمدات تقریباً 10 لاکھ بیرل یومیہ تک بڑھا دیں، جو اس کی کل کھپت کا تقریباً 25 فیصد بنتا ہے۔
یہ اعداد و شمار اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بھارت نے اپنے معاشی مفاد کو مغربی اتحاد کی سالمیت پر ترجیح دی ہے۔ بھارت روس سے یہ تیل عالمی منڈی سے 40 فیصد کم قیمت پر خریدتا ہے، یوں ہر سال تقریباً 20 ارب ڈالر روسی خزانے میں منتقل ہوتے ہیں، جو یوکرین میں جاری جنگ کے لیے مالی ایندھن کا کام دیتے ہیں۔
یورپی یونین کے سفیر کے مطابق روس بھارت کو وہی تیل فراہم کر رہا ہے جو پہلے یورپی صارفین کے لیے مختص تھا۔ اس سے ایک طرف یورپی توانائی مارکیٹ میں قیمتوں کا عدم توازن پیدا ہوا ہے تو دوسری جانب روس کو اپنے فوجی آپریشنز کے لیے مالی استحکام مل رہا ہے۔ نتیجتاً یورپی ممالک پر دوہرا دباؤ بڑھ گیا ہے، ایک طرف یوکرین میں جنگ کے اثرات جبکہ دوسری جانب توانائی کی بڑھتی قیمتیں اور عدم دستیابی۔
بھارت کی یہ پالیسی نہ صرف یورپ کے لیے خطرناک ہے بلکہ عالمی منڈی میں بھی غیر یقینی صورتحال پیدا کر رہی ہے۔ بھارت طویل عرصے سے خود کو ایک غیر جانبدار ملک کے طور پر پیش کرتا آیا ہے جو مشرق اور مغرب دونوں کے ساتھ متوازن تعلقات رکھتا ہے۔ تاہم روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے مالی اور دفاعی روابط نے اس تاثر کو کمزور کر دیا ہے۔
یہ شمولیت اس بات کا ثبوت ہے کہ بھارت محض توانائی کے لیے نہیں بلکہ دفاعی تعاون کے میدان میں بھی ماسکو کے قریب جا رہا ہے۔ نتیجتاً یورپ اور نیٹو میں یہ احساس اب تقویت پا رہا ہے کہ بھارت ایک غیر جانبدار شریک دار کے بجائے غیر یقینی اور ناقابل اعتماد اتحادی بنتا جا رہا ہے۔
جب مغربی دنیا نے روسی تیل پر پابندیاں لگائیں تو مقصد یہ تھا کہ ماسکو کی مالی طاقت محدود ہو اور جنگ ختم ہو سکے۔ لیکن بھارت نے انہی پابندیوں کو اپنے لیے ایک معاشی موقع میں بدل دیا۔ بھارت روسی تیل خرید کر اسے ریفائن کرتا ہے اور پھر ریفائنڈ پروڈکٹس کے نام پر مغربی منڈیوں کو بیچ دیتا ہے۔ یہ عمل بظاہر قانونی ہے مگر اخلاقی لحاظ سے مغربی پالیسی کو کمزور کرنے کے مترادف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ
بھارت کے لیے اس کردار نے ٹرانسلانٹک اتحاد (Transatlantic Alliance) میں بھی اختلافات پیدا کر دیے ہیں۔ امریکہ اور یورپ کے درمیان یہ بحث اب زور پکڑ رہی ہے کہ کیا بھارت کو اب بھی ایک سٹریٹیجک پارٹنر سمجھا جا سکتا ہے؟
امریکہ کے کچھ حلقے بھارت کی حمایت میں ہیں کیونکہ وہ اسے چین کے خلاف ایک ممکنہ توازن کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لیکن یورپی ممالک کے لیے یہ رویہ خطرناک ہے کیونکہ روسی تیل کی بھارتی خریداری ان کی سلامتی کو براہ راست متاثر کر رہی ہے۔ نتیجتاً نیٹو کے اندر بھارت کے کردار پر اعتماد متزلزل ہوتا جا رہا ہے۔
بھارت ہمیشہ خود کو ایک جمہوری ملک کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن اس کے اقدامات عالمی جمہوری اصولوں سے میل نہیں کھاتے۔ جب ایک جمہوریت کھلے عام ایک جارح ملک کی معاشی مدد فراہم کرے تو وہ دراصل اپنے ہی اخلاقی معیار سے انحراف کرتی ہے۔ بھارت کا یہ رویہ یوکرین جیسے چھوٹے ملک کے لیے تباہ کن ہے جو پہلے ہی روسی حملوں کے باعث انسانی المیہ کا شکار ہے۔ انسانی ہمدردی اور عالمی انصاف کے تقاضے یہ کہتے ہیں کہ کوئی بھی ملک ایسی پالیسی نہ اپنائے جس سے ایک جارح طاقت کو سہارا ملے۔
روس اور بھارت کے درمیان تعلقات دہائیوں پر محیط ہیں۔ سوویت دور سے ہی ماسکو نئی دہلی کا قریبی اتحادی رہا ہے، خاص طور پر دفاعی شعبے میں۔ تاہم موجودہ دور میں یہ تعلق ایک نئے زاویے سے دیکھا جا رہا ہے جہاں یہ دوستی اب صرف دفاعی تعاون تک محدود نہیں رہی بلکہ عالمی سفارت کاری میں مغرب کے لیے ایک چیلنج بن چکی ہے۔ بھارت کی توانائی، دفاع اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں روس پر بڑھتا ہوا انحصار یہ ظاہر کرتا ہے کہ نئی دہلی اپنے قومی مفاد کو مغربی اقدار پر ترجیح دے رہا ہے۔
ایک طرف بھارت مغربی ممالک کے ساتھ "Quad” جیسے فورم میں شامل ہے جس کا مقصد انڈو پیسیفک خطے میں چین اور روس کے اثر و رسوخ کو محدود کرنا ہے، اور دوسری طرف وہ روس کے ساتھ تجارتی اور فوجی تعاون بڑھا رہا ہے۔ یہ تضاد بھارت کے عالمی کردار کو مشکوک بناتا ہے۔ یورپی ماہرین کے مطابق بھارت کی یہ دوغلی پالیسی عالمی سفارت کاری کے لیے ایک غیر یقینی عنصر بن چکی ہے کیونکہ ایک طرف وہ مغرب سے ٹیکنالوجی اور سرمایہ حاصل کرتا ہے اور دوسری طرف روس کی معیشت کو سہارا دیتا ہے۔
بھارت کی روسی تیل کی خریداری نے نہ صرف مغربی پالیسیوں کو کمزور کیا ہے بلکہ عالمی سطح پر Rule Based International Order کو بھی چیلنج کیا ہے۔ اگر بھارت جیسے ممالک ان اصولوں کو نظر انداز کریں گے تو یہ خطرناک مثال بن جائے گی کہ عالمی قوانین صرف کمزور ممالک پر لاگو ہوتے ہیں۔ یہ طرز عمل جمہوری دنیا کے اعتماد کو متزلزل کر سکتا ہے اور آمریت پسند ریاستوں کو مزید حوصلہ دے گا۔
یورپی یونین اب بھارت کے ساتھ اپنے توانائی تعلقات پر نظر ثانی کر رہی ہے۔ ممکن ہے کہ مستقبل میں بھارت کو غیر ذمہ دار شراکت دار کے طور پر دیکھا جائے اور یورپی منڈیوں میں اس کی ترجیح کم کر دی جائے۔ اس کے علاوہ بھارت کے خلاف سفارتی دباؤ بڑھانے اور روسی تیل کے غیر قانونی ریفائننگ نیٹ ورک کی نگرانی کے لیے نئی پالیسیوں پر غور کیا جا رہا ہے۔ اگر بھارت نے اپنی پالیسی میں تبدیلی نہ کی تو اسے بین الاقوامی سطح پر تنقید اور اقتصادی نقصان دونوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بھارت اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے۔ ایک طرف اسے روس سے سستا تیل اور دفاعی تعاون حاصل ہے لیکن دوسری طرف وہ عالمی برادری کے اعتماد سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ بھارت کی روس نواز پالیسی نہ صرف یوکرین میں تباہی کو مالی مدد فراہم کر رہی ہے بلکہ یورپ کی توانائی سلامتی، نیٹو اتحاد اور عالمی امن کے لیے بھی خطرہ بن چکی ہے۔ اگر بھارت نے اپنی سمت درست نہ کی تو وہ ایک ایسے ملک کے طور پر یاد رکھا جائے گا جو وقتی فائدے کے لیے عالمی اخلاقیات سے منہ موڑ گیا۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
محمد سلیم برطانیہ میں مقیم مصنف اور محقق ہیں جن کی اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ایک مضبوط علمی بنیاد ہے۔ اس کا کام طاقت اور حکمت عملی کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتا ہے۔ وہ جغرافیائی سیاست، علاقائی معاملات، اور آج کی دنیا کو تشکیل دینے والے نظریات کے لیے ایک باریک عینک لاتا ہے۔
View all posts