بھارت میں سکھ برادری کئی سالوں سے ریاستی جبر کا شکار ہے۔ عام سکھ شہریوں کے علاوہ انڈین آرمی میں موجود حاضر سروس اور ریٹائرڈ سکھ فوجیوں کو بھی بھارت کے ہتک آمیز رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 3 اکتوبر 2025 کو ایک ایسے ہی افسوسناک واقعہ پیش آیا جس میں بھارتی حکومت نے سابق آرمی کمانڈو دھرمندر کو دیگر دو افراد کے ساتھ گرفتار کیا، جو سکھ برادری کے خلاف جاری طویل مدتی ریاستی مہم کا ایک حصہ ہے۔ یہ گرفتاری کسی فرد واحد کا واقعہ نہیں بلکہ ایک منظم ریاستی پالیسی کی عکاسی کرتی ہے، جس کے ذریعے بھارت اپنی اقلیتوں خصوصاً سکھوں، مسلمانوں، عیسائیوں اور نچلی ذات کے ہندوؤں کو مسلسل دبانے، ان کی آواز کو خاموش کرنے اور انہیں پاکستان دشمن بیانیے میں الجھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
گزشتہ 10 سالوں میں بھارت نے سکھوں کے خلاف منظم کریک ڈاؤن کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔ اس دوران سپاہی سکھ چرن سنگھ (3rd Sikh Light Infantry)، سپاہی بربریت سنگھ (Rashtriya Rifles 19) اور سپاہی گربھج سنگھ (Sikh Light Infantry 18) پر 2015 سے 2025 کے درمیان تشدد، جاسوسی یا دہشت گردی کے مبینہ تعلقات کا الزام لگایا گیا، مگر بھارت اب تک ان الزامات کے کوئی ٹھوس شواہد پیش نہیں کر سکا۔
یہ گرفتاریاں اس بات کی علامت ہیں کہ بھارتی ریاست اپنے ہی وفادار شہریوں حتیٰ کہ فوجی اہلکاروں کو بھی محض مذہبی شناخت کی بنیاد پر شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ دھرمندر کی گرفتاری اسی تعصب کا تسلسل ہے، جس کے تحت سکھ برادری کے وفادار شہریوں کو بھی ریاستی دشمن قرار دیا جا رہا ہے۔
بھارت میں سکھ برادری کی جانب سے گرو گرنتھ صاحب کی توہین کے خلاف احتجاج یا خالصتانی سیاسی حقوق کے لیے آواز اٹھانا کوئی نیا معاملہ نہیں، مگر بھارت نے ہمیشہ ان جائز مظاہروں کو دہشت گردانہ سرگرمی قرار دے کر ان پر طاقت کے ذریعے قابو پانے کی کوشش کی ہے۔ چند سالوں میں پنجاب، ہریانہ اور دلی میں سینکڑوں سکھ نوجوان صرف اس جرم میں گرفتار کیے گئے کہ وہ اپنے مذہبی عقائد کے احترام اور سیاسی نمائندگی کے حق کی بات کر رہے تھے۔
انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں جیسے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے متعدد بار بھارتی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ مذہبی اقلیتوں خاص طور پر سکھوں اور مسلمانوں کے خلاف استعمال ہونے والے انسدادِ دہشت گردی کے قوانین کو ختم کرے، مگر نئی دہلی نے ہمیشہ ان آوازوں کو نظر انداز کیا۔ دھرمندر کی گرفتاری نے بھارتی فوج کے اندر بڑھتی بے چینی کو نمایاں کر دیا ہے۔ سکھ فوجی اور سابق اہلکار اس صورتحال پر کھل کر اظہارِ ناراضگی کر رہے ہیں۔ ان کے نزدیک یہ معاملہ صرف ایک شخص یا گروہ تک محدود نہیں بلکہ فوجی نظام کے اندر پنپتے مذہبی تعصب اور امتیازی سلوک کا نتیجہ ہے۔
سکھ برادری کے کئی ریٹائرڈ افسران بشمول سابق کرنل بلوندر سنگھ نے میڈیا پر کھل کر کہا کہ
یہ رویہ فوجی نظم و ضبط کو متاثر کرتا ہے اور خود بھارت کے اندر ایک داخلی بحران کو جنم دے رہا ہے، جو مستقبل میں بھارتی فوج کی ساخت اور مورال کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔
سکھوں پر بھارتی مظالم اب صرف اندرونی معاملہ نہیں رہے۔ دنیا بھر میں سکھ ڈائسپورا خصوصاً کینیڈا، برطانیہ، امریکہ اور آسٹریلیا میں سکھ کمیونٹیز نے اپنے حقِ خود ارادیت اور مذہبی آزادی کے لیے منظم تحریکیں شروع کر رکھی ہیں۔ کینیڈا میں سکھوں کے بڑھتے سیاسی اثر و رسوخ نے بھارت کو شدید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ حال ہی میں کینیڈین حکومت نے لارنس بشنوئی گروپ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا، وہی گروپ جو بھارتی خفیہ اداروں کے لیے بیرونِ ملک مخالفین پر حملے کرتا ہے۔ یہ فیصلہ اس بات کی علامت ہے کہ مغربی دنیا بھارت کے دوہرے معیار کو سمجھنے لگی ہے، جس کے تحت وہ ایک طرف خود کو سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے اور دوسری طرف مذہبی اقلیتوں کو کچلنے کے لیے ریاستی مشینری استعمال کرتا ہے۔
دھرمندر کی گرفتاری کے بعد بھارتی وزارتِ داخلہ نے ایک بیان میں روایتی طور پر پاکستان پر الزام تراشی کی اور سکھوں کو غیر ملکی ایجنٹ یا دہشت گرد کے طور پر پیش کر کے بین الاقوامی توجہ ہٹانے اور اپنی بڑھتی ہوئی عالمی مذمت کو سست کرنے کی کوشش کی۔ یہ ایک ریاستی سازش کا واضح نمونہ ہے، جس میں بھارت سکھوں پر جاری مظالم کو چھپانے اور ان کی جدوجہد کو عالمی سطح پر بے اثر کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
پاکستان پر الزام نہ صرف بے بنیاد ہے بلکہ بھارت کی ایک سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ ہے، جس کے تحت وہ اپنے اندرونی مسائل کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال کر عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
پاکستان کا موقف ہمیشہ سے واضح رہا ہے کہ وہ سکھوں کی مذہبی آزادی اور حقِ خود ارادیت کے اصولی طور پر حامی ہیں۔ کرتارپور راہداری اس موقف کی سب سے بڑی عملی مثال ہے جسے پوری دنیا نے سراہا، مگر بھارت نے اس اقدام کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھا اور اپنے میڈیا کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ پاکستان خالصتان تحریک کو ہوا دے رہا ہے۔ حقیقت میں بھارت کے اندر ہونے والا جبر اس سطح پر پہنچ چکا ہے جہاں بھارتی حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے کے لیے پاکستان پر الزام تراشی کو واحد راستہ سمجھتی ہے۔
سکھ برادری کے ساتھ ہونے والے مظالم پر عالمی اداروں کی خاموشی افسوسناک ہے۔ اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے کئی اجلاسوں میں سکھ نمائندوں نے بھارتی ریاستی دہشت گردی کے شواہد پیش کیے، مگر نئی دہلی کے اثر و رسوخ کے باعث یہ معاملات اکثر فائلوں میں دفن کر دیے گئے۔ جس کی بدولت بھارتی حکومت اب کھلے عام سکھوں کو اٹھا رہی ہے، انہیں گمشدہ قرار دے رہی ہے اور ان کے خاندانوں پر دباؤ ڈال رہی ہے کہ وہ ریاست کے خلاف لب کشائی سے باز رہیں۔
بھارتی پالیسی ساز جانتے ہیں کہ سکھ برادری محض ایک مذہبی گروہ نہیں بلکہ تاریخی لحاظ سے ایک انقلابی قوت ہے جس نے ماضی میں بھی ریاستی جبر کے سامنے سر نہیں جھکایا۔ 1984 کے سکھ مخالف فسادات سے لے کر آج تک سکھ قوم نے ہر دور میں قربانیاں دی ہیں۔ اب جبکہ بھارت کی داخلی سیاست ہندوتوا ایجنڈے کی مکمل گرفت میں ہے تو سکھوں کی مزاحمت نئی شکل میں ابھر رہی ہے۔ دھرمندر جیسے سابق فوجیوں کی گرفتاری دراصل خوفزدہ ریاست کی بوکھلاہٹ ہے جو اپنے ہی سپاہیوں سے خوفزدہ ہے۔
2 اکتوبر 2025 کی گرفتاریاں صرف قانون نافذ کرنے کے الگ تھلگ اقدامات نہیں بلکہ ایک مربوط اور منصوبہ بند مہم کا حصہ ہیں، جس کا مقصد اپنی برادری کے جائز حقوق کے لیے لڑنے والے سکھوں کو دبانا ہے، جبکہ بین الاقوامی برادری سکھ مقصد کی حمایت میں کھڑی ہے۔ بھارت آج جس راہ پر گامزن ہے وہ جمہوری اصولوں اور انسانی ضمیر کے منافی ہے۔ دنیا دیکھ رہی ہے کہ سکھ برادری کی آواز اب سرحدوں سے آگے گونجنے لگی ہے۔ بھارت کی پالیسی آخر کار اس کے لیے سیاسی بوجھ بنے گی۔ پاکستان کا موقف انسانی وقار، مذہبی آزادی اور اصولی سفارت کاری پر مبنی تھا اور رہے گا۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
محمد عبداللہ آسٹن یونیورسٹی، برطانیہ میں بین الاقوامی تعلقات میں امیدوار۔ ان کی تحقیقی دلچسپیاں عالمی سلامتی، خارجہ پالیسی کے تجزیہ اور بین الاقوامی سفارت کاری کی ابھرتی ہوئی حرکیات پر مرکوز ہیں۔ وہ علمی گفتگو میں فعال طور پر مصروف ہیں اور جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست اور کثیر جہتی تعلقات پر خاص زور دینے کے ساتھ علمی پلیٹ فارمز میں حصہ ڈالتے ہیں۔
View all posts