Nigah

مذہبی آزادی کا جنازہ بھارت میں اقلیتوں پر ریاستی جبر کی نئی لہر

مذہبی آزادی کا جنازہ بھارت میں اقلیتوں پر ریاستی جبر کی نئی لہر Shazil

بھارت جو کبھی دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہلانے کا دعویدار تھا، آج مذہبی جبر، انتہا پسندی اور ریاستی تعصب کی آماجگاہ بنتا جا رہا ہے۔ مہاراشٹر میں ایک امریکی شہری جیمز واٹسن کی گرفتاری نے ایک بار پھر بھارت کے مذہبی عدم برداشت کے چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے۔ جیمز واٹسن اپنے دو ساتھیوں کے ہمراہ عیسائی دعاؤں کے انعقاد اور مذہبی کتب کی تقسیم میں مصروف تھے، لیکن بھارتی پولیس نے انہیں ’’مذہب کی تبدیلی‘‘ اور ’’غیر قانونی مذہبی سرگرمیوں‘‘ کے الزامات میں گرفتار کر لیا۔ یہ گرفتاری نہ صرف بھارت کے مذہبی قوانین کے غلط استعمال کو ظاہر کرتی ہے بلکہ یہ بھی واضح کرتی ہے کہ بھارت میں اقلیتوں اور غیر ملکی مشنریز کے لیے مذہبی آزادی اب خواب بن چکی ہے۔

بھارتی حکام نے جیمز واٹسن کی سرگرمیوں کو فارنرز ایکٹ، مذہب تبدیلی قوانین اور مہاراشٹر پریوینشن اینڈ ایریڈیکیشن آف ہیومن ساکرفائس اینڈ بلیک میجک ایکٹ 2013 کے تحت غیر قانونی قرار دیا۔ یہ قوانین بظاہر مذہبی ہم آہنگی کے لیے بنائے گئے تھے، لیکن حقیقت میں یہ اقلیتوں کو دبانے اور مذہبی سرگرمیوں کو قابو میں رکھنے کا ایک نیا ہتھیار بن چکے ہیں۔ واٹسن کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ لوگوں کے ساتھ دعا کرتے اور انجیل کی تعلیم دیتے تھے، لیکن بھارتی حکومت نے اسے ’’مذہب کی جبری تبدیلی‘‘ سے تعبیر کیا۔ ایک ایسا الزام جو اب بھارت میں کسی بھی اقلیتی مذہب پر آسانی سے لگا دیا جاتا ہے۔

اس سے قبل امریکی مشنری اسٹیفن کورنی کو بھی اسی نوعیت کے الزامات پر گرفتار کیا گیا تھا، جس پر ’’کوکی شدت پسندوں کو ڈرونز اور حفاظتی سامان دینے‘‘ جیسے بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے۔ ایسے اقدامات ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت میں غیر ملکی فلاحی سرگرمی کو بھی سازش سمجھا جاتا ہے، خاص طور پر اگر وہ ہندو مذہب کے بیانیے سے مطابقت نہ رکھتی ہو۔

گزشتہ چند برسوں میں بھارت میں اقلیتوں پر ریاستی جبر ایک منظم مہم کی شکل اختیار کر چکا ہے۔ مودی حکومت کے دور میں ’’گھر واپسی (شدھی)‘‘ اور ’’سنگھٹن‘‘ جیسی پرانی ہندو انتہا پسند تحریکوں کو نئی زندگی ملی ہے۔ ان تحریکوں کا بنیادی مقصد اقلیتوں کو ہندو مذہب میں دوبارہ شامل کرنا یا انہیں سماجی و معاشی طور پر اس حد تک دبانا ہے کہ وہ اپنی مذہبی شناخت چھوڑنے پر مجبور ہو جائیں۔

عیسائی، مسلمان، سکھ، بدھ اور دلت کمیونٹیز اب بھارت کے مختلف حصوں میں ایک منظم ریاستی دباؤ کا شکار ہیں۔ مہاراشٹر، اتر پردیش، چھتیس گڑھ، تلنگانہ اور منی پور میں گرفتاریاں، تشدد، عدالتی قتل، گھروں کی تباہی اور مذہب تبدیلی کے دباؤ معمول بن چکے ہیں۔

’’ہندو راشٹر‘‘ کے بیانیے کے تحت بھارت کو ایک مذہبی اکثریتی ریاست میں تبدیل کرنے کا عمل زور و شور سے جاری ہے اور اقلیتوں کے حقوق محض آئینی تحریر تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔

بھارتی حکومت اپنے سرکاری بیانات میں مذہبی آزادی کا دعویٰ کرتی ہے، مگر زمینی حقائق کچھ اور بتاتے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل بارہا بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف منظم جبر کی نشاندہی کر چکی ہیں۔ ان اداروں کے مطابق صرف گزشتہ دو سالوں میں 1000 سے زائد واقعات درج کیے گئے، جن میں تشدد، جبری تبدیلی مذہب، گرفتاریوں اور املاک کی تباہی شامل ہیں۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ جنوری تا مارچ 2025 کے دوران کم از کم چھ مسلمان پولیس اور سیکیورٹی فورسز کے ہاتھوں عدالتی قتل کا نشانہ بنے، جبکہ 100 سے زائد غیر قانونی گرفتاریوں کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ اسی طرح عیسائی برادری نے صرف پانچ ماہ (جنوری تا مئی 2025) میں 313 پرتشدد حملے برداشت کیے، یعنی روزانہ اوسطاً دو حملے۔ یہ اعداد و شمار خود اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ بھارت میں مذہبی آزادی صرف اکثریت کے لیے ہے۔

بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ساتھ دلت اور نچلی ذاتوں کے لوگ بھی سنگین مظالم کا سامنا کر رہے ہیں۔ یہ وہ طبقہ ہے جو نہ صرف سماجی امتیاز بلکہ ریاستی عدم تحفظ کا شکار ہے۔ اگست 2024 میں اتر پردیش میں ایک دلت نرس کو نجی ہسپتال کے ڈاکٹر نے زیادتی کا نشانہ بنایا۔ یہ محض ایک واقعہ نہیں بلکہ اُس سماجی نظام کی عکاسی ہے جو ذات پات کے تعصب اور مذہبی منافرت پر قائم ہے۔

دلتوں کے خلاف ظلم، زمینوں پر قبضے اور عبادت گاہوں کی بے حرمتی روزمرہ کا معمول بنتی جا رہی ہے۔ مودی حکومت کے ’’سوشل جسٹس‘‘ کے نعروں کے باوجود عملی طور پر بھارت میں دلت طبقہ دوسرے درجے کے شہریوں سے بدتر زندگی گزار رہا ہے۔

مذہبی آزادی کا جنازہ بھارت میں اقلیتوں پر ریاستی جبر کی نئی لہر

شمال مشرقی بھارت میں میتی ہندو گروپس اور عیسائی اکثریتی کوکی-زو کمیونٹی کے درمیان جھڑپوں نے ایک خطرناک موڑ اختیار کر لیا ہے۔ ان جھڑپوں میں کم از کم 11 افراد ہلاک ہوئے، درجنوں زخمی ہوئے اور کئی گاؤں جلا دیے گئے۔ بھارتی حکومت نے ان واقعات کو ’’عیسائی سازش‘‘ قرار دے کر اقلیتی آبادی کے خلاف مزید کارروائیاں شروع کر دیں۔

یہ رجحان ظاہر کرتا ہے کہ بھارت میں فرقہ وارانہ تشدد کے پیچھے ریاستی بیانیہ خود شامل ہوتا ہے، جس کا مقصد اکثریت کے جذبات کو بھڑکانا اور اقلیتوں کو کمزور کرنا ہے۔ ایسے واقعات سے بین الاقوامی سطح پر بھارت کی نام نہاد جمہوری ساکھ بری طرح متاثر ہو رہی ہے مگر نئی دہلی کی حکومت اب بھی خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔

بھارت میں آج مذہبی اقلیتوں کی زندگی خوف اور غیر یقینی کا دوسرا نام بن چکی ہے۔ مسلمانوں پر گائے کے ذبیحے کے الزامات لگا کر ہجوم کے ہاتھوں قتل عام معمول کی بات ہے۔ عیسائیوں کے چرچ مسمار کیے جا رہے ہیں، مذہبی اجتماعات پر حملے ہو رہے ہیں، اور پادریوں کو تبدیلی مذہب کے مقدمات میں جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ سکھوں کو علیحدگی پسندی کے طعنے دے کر نشانہ بنایا جاتا ہے جبکہ بدھ مت کے پیروکار بھی ’’ہندو شناخت‘‘ میں ضم کرنے کے دباؤ میں ہیں۔

یہ تمام واقعات ایک مشترک حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بھارت میں ہندو قوم پرستی اب ریاستی پالیسی بن چکی ہے۔ اقلیتوں کو محض ’’غیر وفادار‘‘ یا ’’غیر ملکی ایجنٹ‘‘ کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے تاکہ ان کے بنیادی حقوق سلب کیے جا سکیں۔

بھارت میں اقلیتوں کے خلاف بڑھتے ہوئے مظالم پر عالمی برادری کو اب خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ امریکہ اور یورپی ممالک جو خود کو انسانی حقوق کے محافظ سمجھتے ہیں، انہیں بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات میں انسانی حقوق کو بنیادی حیثیت دینی چاہیے۔ اقوام متحدہ، او آئی سی اور دیگر بین الاقوامی فورمز کو بھارت میں اقلیتوں کے تحفظ کے لیے واضح پالیسی اور دباؤ کے اقدامات کرنے ہوں گے۔

اگر یہ جبر یونہی جاری رہا تو نہ صرف بھارت کا جمہوری تشخص ختم ہو جائے گا بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں مذہبی انتہا پسندی کی نئی لہر جنم لے گی۔ بھارت کی ’’شدھی‘‘ اور ’’سنگھٹن‘‘ تحریکیں اب صرف تاریخی حوالہ نہیں رہیں بلکہ موجودہ بھارت کا نیا چہرہ بن چکی ہیں، جہاں اقلیت ہونا سب سے بڑا جرم بن گیا ہے۔

جیمز واٹسن کی گرفتاری محض ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک انتباہ ہے کہ بھارت کا سیکولر اور جمہوری ڈھانچہ تیزی سے کمزور ہو رہا ہے۔ جہاں ایک امریکی شہری صرف دعا پڑھنے اور کتاب بانٹنے پر جیل پہنچ سکتا ہے، وہاں مقامی اقلیتوں کی حالت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

مودی حکومت کے زیرِ سایہ ’’ہندو راشٹر‘‘ کا خواب اب حقیقت میں بدل رہا ہے، مگر اس کے نتیجے میں بھارت اپنی جمہوری روح، عالمی وقار اور انسانی قدروں سے محروم ہوتا جا رہا ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری بھارت سے سوال کرے کہ کیا مذہبی آزادی اب صرف اکثریت کا حق رہ گیا ہے؟

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • Azeem gul nigah pk

    ڈاکٹر عظیم گل نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگویجز، اسلام آباد کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات میں فیکلٹی ہیں۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔