Nigah

جامعات کا بدلتا ہوا کردار علم سے نظریاتی تقسیم تک

nigah جامعات کا بدلتا ہوا کردار علم سے نظریاتی تقسیم تک
[post-views]

پاکستان کی جامعات میں نوجوانوں کی انتہا پسندی وجوہات، اثرات اور حل

پاکستان میں اعلیٰ تعلیمی ادارے ہمیشہ قومی ترقی، فکری آزادی اور سماجی تبدیلی کے مراکز سمجھے جاتے رہے ہیں۔ مگر گزشتہ دو دہائیوں میں ایک نیا اور خطرناک رجحان سامنے آیا ہے، جامعات اور کالجوں میں نوجوانوں کی انتہا پسندی۔ یہ رجحان نہ صرف تعلیمی ماحول کو متاثر کرتا ہے بلکہ ملک کی سماجی ہم آہنگی، سلامتی اور مستقبل کے لیے بھی ایک سنجیدہ خطرہ بن چکا ہے۔ انتہا پسندی کا یہ بیج مختلف عوامل کے امتزاج سے پروان چڑھتا ہے: معاشی دباؤ، سماجی ناانصافی، مذہبی و سیاسی بیانیے کی غلط تشریح اور دشمن قوتوں کی نظریاتی مداخلت۔
ہم ان تمام پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں جو پاکستانی جامعات میں نوجوانوں کی انتہا پسندی کو جنم دیتے ہیں اور یہ دیکھیں گے کہ اس کے سدباب کے لیے کیا عملی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔

پاکستان کی تعلیمی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ جامعات کبھی علمی مکالمے، برداشت اور تنقیدی سوچ کے گہوارے ہوا کرتی تھیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کئی ادارے انتہا پسند تنظیموں کے نظریاتی اثرات میں آنا شروع ہو گئے۔ بعض سیاسی و مذہبی گروہ طلبہ تنظیموں کے ذریعے اپنے مفادات کے لیے نوجوانوں کو استعمال کرنے لگے۔

یہ وہ وقت تھا جب تعلیم کا مقصد علم و تحقیق کے بجائے نظریاتی برتری حاصل کرنا بن گیا۔

اس عمل نے یونیورسٹی کی دیواروں کے اندر ایسی تقسیم پیدا کر دی جو معاشرے کی مجموعی تقسیم کی عکاس ہے۔

نوجوانی کا دور جوش، خوابوں اور جذبات کا دور ہوتا ہے۔ یہی کیفیت اگر مثبت سمت میں جائے تو قیادت اور ترقی جنم لیتی ہے، اور اگر منفی سمت میں مائل ہو جائے تو انتہا پسندی کے بیج پھوٹنے لگتے ہیں۔ پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری، مہنگائی، اور معاشی غیر یقینی نے نوجوانوں میں مایوسی پیدا کی ہے۔ ایسے حالات میں انتہا پسند گروہ ان کی محرومیوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ وہ انہیں ایک مقدس مقصد کے نام پر ایسا احساس دلاتے ہیں جیسے وہ کسی عظیم جدوجہد کا حصہ ہوں۔ یہی نفسیاتی کمزوری انہیں انتہا پسندی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔

بدقسمتی سے کئی جامعات اور کالج اب انتہا پسند بھرتیوں کے لیے آسان ہدف بن چکے ہیں۔ طلبہ کو نظریاتی طور پر متاثر کرنے کے لیے مذہب، سیاست یا فرقے کا سہارا لیا جاتا ہے۔ شدت پسند عناصر تعلیمی ماحول میں ایسے گروہوں کو فروغ دیتے ہیں جو بحث و مکالمے کے بجائے نفرت اور دشمنی کا درس دیتے ہیں۔ بعض اوقات تعلیمی انتظامیہ کی غفلت یا غیر فعال گورننس اس رجحان کو مزید تقویت دیتی ہے۔ طلبہ کے مسائل حل کرنے کے لیے مشاورتی نظام اور ذہنی معاونت کی کمی بھی نوجوانوں کو غیر صحت مند نظریات کی طرف مائل کرتی ہے۔

ڈیجیٹل دور میں سوشل میڈیا انتہا پسندی کے پھیلاؤ کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان جو زیادہ تر وقت آن لائن گزارتے ہیں، ان کے لیے فیس بک، ایکس، یوٹیوب اور ٹیلیگرام جیسے پلیٹ فارمز پر پھیلایا جانے والا انتہا پسند مواد انتہائی پرکشش دکھائی دیتا ہے۔ یہ مواد دشمن قوتوں کے زیرِ اثر تیار کیا جاتا ہے تاکہ اسلام کے حقیقی پیغام کو مسخ کیا جا سکے اور عسکریت کو جہاد کے طور پر پیش کیا جائے۔ یہ آن لائن نیٹ ورکس ذہنی طور پر کمزور طلبہ کو نہ صرف متاثر کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات انہیں عملی سرگرمیوں میں بھی شامل کر لیتے ہیں۔

nigah pakistan fllag

پاکستان کی جامعات میں مذہبی شناخت اور فرقہ وارانہ وابستگی کو بعض شدت پسند گروہ اپنی طاقت بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ گروہ مخصوص عقائد یا مسالک کو “برحق” اور دوسروں کو “باطل” قرار دیتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں مکالمہ ختم ہو جاتا ہے اور عدم برداشت فروغ پاتی ہے۔ ایسے ماحول میں وہ طلبہ جو مختلف پس منظر رکھتے ہیں، خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ نتیجتاً تعلیمی سرگرمیوں کے بجائے نظریاتی جھگڑے جنم لیتے ہیں۔ یہی وہ فضا ہے جہاں شدت پسند عناصر اپنی جڑیں مضبوط کرتے ہیں۔

طلبہ یونینز کسی بھی تعلیمی ادارے میں جمہوری تربیت کا ذریعہ ہوتی ہیں، لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں ان کا کردار اکثر منفی سمت اختیار کر لیتا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور فرقہ وارانہ گروہوں کی پشت پناہی سے یہ یونینز نظریاتی اکھاڑوں میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ نوجوان جب کسی سیاسی یا مذہبی بیانیے کے زیرِ اثر آتے ہیں تو ان کی فکری آزادی متاثر ہوتی ہے اور وہ اختلافِ رائے کو دشمنی سمجھنے لگتے ہیں۔ یہی ذہنی جمود انتہا پسندی کے بیانیے کو تقویت دیتا ہے۔ انتہا پسند عناصر اپنے نظریات کو اسلام کے نام پر پیش کرتے ہیں تاکہ نوجوانوں کو مذہبی جذبے کے ذریعے متاثر کیا جا سکے۔ اسلام کے نام پر جہاد، قربانی اور غیرت جیسے الفاظ استعمال کر کے وہ نوجوانوں کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ حالانکہ قرآن و سنت واضح طور پر امن، برداشت اور انسانیت کے احترام کا حکم دیتے ہیں۔ اسلام میں کسی بے گناہ انسان کو قتل کرنا پوری انسانیت کے قتل کے مترادف ہے۔ مگر انتہا پسند گروہ اسی آیت کو مسخ کر کے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ فکری انحراف اصل دین کی روح کے خلاف ہے۔

پاکستان کا تعلیمی نظام عموماً تنقیدی سوچ، مکالمے اور فکری سوالات کو فروغ دینے میں ناکام رہا ہے۔ طلبہ کو رٹہ سسٹم کے ذریعے نمبر تو مل جاتے ہیں لیکن فکری بلوغت نہیں۔ نتیجتاً وہ کسی بھی شدت پسند بیانیے کے سامنے آسانی سے متاثر ہو جاتے ہیں کیونکہ ان کے پاس عقلی و منطقی بنیادوں پر جواب دینے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ اس کے برعکس، اگر تعلیمی ادارے تنقیدی سوچ، مکالمے اور تحقیق پر مبنی نصاب اپنائیں تو یہی نوجوان ملک کے مثبت مستقبل کی ضمانت بن سکتے ہیں۔

انتہا پسندی کا مقابلہ صرف سکیورٹی اقدامات سے ممکن نہیں۔ اس کے لیے ایک جامع قومی و ادارہ جاتی حکمتِ عملی درکار ہے جو تعلیم، سماج اور ریاست تینوں سطحوں پر عمل کرے۔ اس مقصد کے لیے جامعات میں ایسے کورسز متعارف کرائے جائیں جو برداشت، رواداری اور اختلافِ رائے کے احترام کو فروغ دیں۔ طلبہ کے لیے کاؤنسلنگ سینٹرز قائم کیے جائیں تاکہ وہ ذہنی دباؤ یا مایوسی کی صورت میں درست رہنمائی حاصل کر سکیں۔ اساتذہ کو تربیت دی جائے کہ وہ انتہا پسند رویوں کو پہچان سکیں اور بروقت اصلاحی اقدامات کریں۔ سوشل میڈیا پر شدت پسند مواد کے خلاف نگرانی اور آگاہی مہمات چلائی جائیں۔ سیاسی و مذہبی اثر سے پاک طلبہ تنظیمیں تعلیمی اداروں میں جمہوری اقدار اور مکالمے کو فروغ دے سکتی ہیں۔

ریاست، میڈیا، علما اور سول سوسائٹی مل کر ایسا قومی بیانیہ تشکیل دیں جو نوجوانوں کو شمولیت، مثبت سوچ اور تعمیرِ وطن کی طرف راغب کرے۔

پاکستان کے نوجوان ملک کا قیمتی اثاثہ ہیں۔ اگر ان کی توانائی اور جذبے کو مثبت سمت دی جائے تو یہی قوم کے معمار بن سکتے ہیں۔ لیکن اگر انتہا پسند عناصر انہیں گمراہ کرنے میں کامیاب ہو گئے تو یہی نسل ملک کے مستقبل کے لیے خطرہ بن سکتی ہے۔ تعلیمی اداروں کو دوبارہ علم، برداشت اور مکالمے کے مراکز بنانا ہوگا تاکہ وہاں نفرت نہیں بلکہ فہم و دانش کا چراغ جلے۔ یہی وہ راستہ ہے جو پاکستان کو انتہا پسندی کے اندھیروں سے نکال کر امن، ترقی اور استحکام کی روشنی کی طرف لے جا سکتا ہے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر حسین جان

    حسین جان کے علمی مفادات بین الاقوامی سلامتی، جغرافیائی سیاسی حرکیات، اور تنازعات کے حل میں ہیں، خاص طور پر یورپ پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے۔ انہوں نے عالمی تزویراتی امور سے متعلق مختلف تحقیقی فورمز اور علمی مباحثوں میں حصہ ڈالا ہے، اور ان کا کام اکثر پالیسی، دفاعی حکمت عملی اور علاقائی استحکام کو تلاش کرتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔