افغانستان اور پاکستان کے تعلقات ہمیشہ تاریخ، جغرافیہ اور مذہب کے بندھن میں جڑے رہے ہیں تاہم حالیہ برسوں میں خصوصاً افغان سرزمین سے سرگرم دہشت گرد گروہوں فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے بڑھتے ہوئے حملوں کے بعد، کابل اور اسلام آباد کے درمیان تناؤ میں اضافہ ہوا ہے۔ یہ کشیدگی اچانک یا بلا جواز نہیں بلکہ برسوں سے جاری سرحد پار دہشت گردی کا براہ راست نتیجہ ہے جس کا مرکز افغان سرزمین ہے۔
2021 میں طالبان نے جب کابل پر قبضہ کیا تو دنیا بھر کے ممالک نے اپنے سفارت خانے بند کر دیے، مگر پاکستان وہ واحد ملک تھا جس نے نہ صرف اپنا سفارتخانہ کھلا رکھا بلکہ غیر ملکیوں کے محفوظ انخلاء میں کلیدی کردار ادا کیا۔ اس کے بعد ہر بین الاقوامی فورم اقوام متحدہ، ای سی او اور او آئی سی میں پاکستان نے افغان عوام کے حقوق اور منجمد اثاثوں کی بحالی کے لیے آواز بلند کی۔ پاکستان نے افغان عوام کے لیے تجارت، تعلیم اور علاج کے دروازے کھلے رکھے۔
افغانستان کے امن و استحکام کے لیے پاکستان نے متعدد بار مصالحتی کردار ادا کیا۔ 2022 میں مفتی تقی عثمانی کی سربراہی میں علماء کا وفد کابل گیا تاکہ طالبان اور ٹی ٹی پی دونوں کو قائل کیا جا سکے کہ پاکستان میں حملے روکیں۔ اسی سال قبائلی عمائدین کا جرگہ بھی افغانستان کے دارالحکومت گیا۔ 2023 میں وزیر دفاع خواجہ آصف اور ڈی جی آئی ایس آئی کی قیادت میں ایک اعلیٰ سطحی وفد کابل گیا تاکہ سکیورٹی اور بارڈر مینجمنٹ پر تعاون بڑھایا جا سکے۔ 2024 میں وزیر داخلہ محسن نقوی نے بھی انسداد دہشت گردی پر تعاون کے لیے کابل کا دورہ کیا۔
ان تمام سفارتی کاوشوں کے ساتھ پاکستان نے اقتصادی تعاون بھی بڑھایا۔ ارلی ہارویسٹ پروگرام کے تحت آٹھ زرعی اجناس پر محصولات کم کیے گئے تاکہ دونوں ملکوں کے تاجروں کو فائدہ ہو۔ لیکن ان خیر سگالی اقدامات کے باوجود کابل نے فتنہ الخوارج کے دہشت گردوں کو پنپنے دیا جس سے نہ صرف سرحدی سلامتی متاثر ہوئی بلکہ علاقائی امن بھی خطرے میں پڑ گیا۔
افغان عبوری حکومت نے بارہا یقین دہانیاں کرائیں کہ اس کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی۔ لیکن عملی طور پر اس کے برعکس ہوا۔ پاکستانی اداروں کی جون 2025 تک مختلف کارروائیوں میں 272 افغان دہشت گرد مارے گئے جو گزشتہ سال کے مقابلے میں 36 فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہیں۔ اسی عرصے میں 4 ہزار سے زائد دہشت گردوں نے افغان صوبوں سے خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دراندازی کی۔
افغان صوبے نورستان، کنڑ، ننگرہار، زابل، نمروز، پکتیا، خوست اور پکتیکا فتنہ الخوارج کے مضبوط گڑھ بن چکے ہیں۔ ان علاقوں میں تقریباً 60 سے زائد تربیتی کیمپ موجود ہیں جو پاکستان کے اندر دہشت گردی کی منصوبہ بندی اور تربیت کے مراکز کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں۔ تین نئے مقامات پر بھی دہشت گردی کے تربیتی کیمپ قائم کیے گئے ہیں۔
اس بات کی تصدیق اقوام متحدہ کی 36 ویں اینالیٹیکل سپورٹ اینڈ سینکشنز مانیٹرنگ ٹیم کی رپورٹ جولائی 2025 نے بھی کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق افغانستان کی طالبان حکومت بدستور القاعدہ اور فتنہ الخوارج کو محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہی ہے۔ چھ افغان صوبے غزنی، ہلمند، اورزگان، قندھار اور کابل طالبان کی نگرانی میں دہشت گردوں کے مراکز بن چکے ہیں۔
اس رپورٹ کے مطابق افغانستان میں 6 ہزار سے زائد فتنہ الخوارج کے جنگجو طالبان حکومت کی مالی اور لاجسٹک مدد سے سرگرم ہیں۔ یہ ثبوت کابل کے ان دعووں کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں جن میں وہ افغانستان میں دہشت گردوں کی موجودگی سے انکار کرتا ہے۔
پاکستان نے کابل کو ان دہشت گرد ٹھکانوں کے درست مقامات کے شواہد فراہم کیے، مگر کارروائی کی بجائے افغان حکام نے خاموشی اختیار کی۔ مزید براں افغانستان کی جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلیجنس کی نگرانی میں ان نیٹ ورکس کو مزید وسعت دی گئی۔ پاکستانی انٹیلیجنس رپورٹس کے مطابق ٹی ٹی پی کا سربراہ نور ولی محسود کابل میں طالبان کی سرپرستی میں موجود ہے، جہاں اسے ماہانہ 43 ہزار ڈالر کی مالی معاونت فراہم کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب نور ولی محسود پر کابل میں حملے کی خبریں آئیں تو افغان سوشل میڈیا اکاؤنٹس نے فوراً تردید کی جو اس کے کابل میں قیام کا ثبوت ہے۔
پاکستانی سیکیورٹی اداروں نے حالیہ دہشت گرد حملوں میں 207 افغان شہریوں کی شمولیت کی تصدیق کی ہے جو اس بات کی واضح نشاندہی ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو رہی ہے۔ افغانستان ایک بار پھر غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں کا اڈا بنتا جا رہا ہے۔ فتنہ الخوارج اور بلوچ لبریشن آرمی جیسے گروہ اب ایک پیڈ پراکسی کے طور پر پاکستان مخالف کارروائیوں میں ملوث ہیں۔
نیٹو اور امریکی افواج کے چھوڑے گئے سات ارب ڈالر مالیت کے اسلحے جیسے ایم 16 رائفلز، ایم 4 کاربائنز، نائٹ وژن ڈیوائسز اور تھرمل آپٹس ابھی ان دہشت گردوں کے ہاتھوں میں ہیں۔ یہ اسلحہ بنوں، ڈیرہ اسماعیل خان اور بلوچستان میں حملوں میں استعمال ہوا۔ صرف بنوں میں ایف آر پی ہیڈ کوارٹر پر حملے میں مارے جانے والے چھ دہشت گردوں میں تین افغان شہری تھے۔ اسی طرح تحفظ امارات اسلامی فورس کے نام سے نیا گروہ ڈیرہ اسماعیل خان کے پولیس ٹریننگ سکول پر حملے میں ملوث پایا گیا۔
پاکستان نے 40 سال سے زائد عرصے میں 50 لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دی یہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی میزبانیوں میں سے ایک ہے۔ پاکستان نے اے پی ٹی ٹی اے معاہدے کے تحت افغانستان کو بندرگاہوں اور عالمی منڈیوں تک کسٹم فری رسائی دی۔ سرحدی تجارت، تعلیمی وظائف اور صحت کی سہولیات میں اربوں روپے کی سرمایہ کاری کی۔ لیکن بدقسمتی سے کابل نے پاکستان کی اس خیر سگالی کا جواب دشمنی سے دیا۔
پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ، طالبان حکومت کی چشم پوشی اور بھارتی مفادات سے قربت یہ سب اس بات کی علامت ہیں کہ افغانستان ایک بار پھر غیر ملکی مفادات کا میدان بن رہا ہے۔ افغان وزیر خارجہ کے حالیہ بھارت نواز بیانات وقتی طور پر کابل کو خوش کر سکتے ہیں مگر تاریخ گواہ ہے کہ بھارت نے ہمیشہ افغانستان کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا اور جب مقصد پورا ہوا تو اسے تنہا چھوڑ دیا۔
افغان طالبان کا یہ دعوی کہ دہشت گردی پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے دراصل فریب نظر ہے۔ حقیقت میں افغان سرزمین پر موجود فتنہ الخوارج اور دیگر گروہ پاکستان کے خلاف منظم منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جس کی تصدیق اقوام متحدہ کی رپورٹس بھی کر چکی ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ کابل پاکستان کے ساتھ برادرانہ، اسلامی اور باہمی احترام پر مبنی تعلقات بحال کرے۔ بارڈر مینجمنٹ، تجارت اور سیکیورٹی تعاون کے ذریعے افغانستان اپنے عوام کے لیے بھی ایک پرامن مستقبل تشکیل دے سکتا ہے۔
پاکستان افغانستان سرحد دنیا کے سافٹ بارڈرز میں سے ایک ہے جہاں افغان شہری پاسپورٹ کی بجائے مقامی پرمٹ کے ذریعے آتے ہیں جس کا بارہا ناجائز فائدہ اٹھایا گیا۔ غیر قانونی افغان شہریوں کے حوالے سے پاکستان کے اقدامات ایک خود مختار ریاست کی حیثیت سے ضروری ہیں جو سلامتی، معاشی و سماجی خدشات پر مبنی ہیں۔
پاکستان ایک پرامن، مستحکم اور خوشحال افغانستان کا خواہاں ہے۔ مکالمے اور تعاون کے ذریعے تعلقات کو بہتر بنانا چاہتے ہیں لیکن پاکستان کی خود مختاری اور شہریوں کی حفاظت ہماری اولین ترجیح ہے۔ کسی بھی جارحیت کا جواب بھرپور اور متناسب دیا جائے گا۔ افغان طالبان کے پاس اب بھی موقع ہے کہ وہ عالمی برادری کے ایک ذمہ دار رکن کی حیثیت سے اپنی سرزمین پر سرگرم دہشت گرد گروہوں کے خلاف قابلِ تصدیق اور عملی اقدامات کریں۔
پاکستان نے چار دہائیوں تک افغان عوام کے لیے جو قربانیاں دی ہیں وہ اسلامی اخوت اور انسانی ہمدردی کی روشن مثال ہیں۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ کابل بھی اسی اخوت کا ثبوت دے اور فتنہ الخوارج اور فتنہ الہند جیسے دہشت گرد گروہوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینک کر خطے میں امن کا حقیقی علمبردار بنے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
محمد سلیم برطانیہ میں مقیم مصنف اور محقق ہیں جن کی اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ایک مضبوط علمی بنیاد ہے۔ اس کا کام طاقت اور حکمت عملی کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتا ہے۔ وہ جغرافیائی سیاست، علاقائی معاملات، اور آج کی دنیا کو تشکیل دینے والے نظریات کے لیے ایک باریک عینک لاتا ہے۔
View all posts