امریکہ میں بھارتی نژاد امریکی ماہر خارجہ پالیسی ایشن جے ٹیلس (Ashley J. Tellis) کی گرفتاری نے نہ صرف واشنگٹن کے ایوانوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ بھارت کے بڑھتے ہوئے خفیہ نیٹ ورک اور اس کی دوغلی پالیسیوں کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ ایشن ٹیلس جو کئی دہائیوں سے امریکی پالیسی حلقوں میں اثر و رسوخ رکھتے تھے، اب خفیہ معلومات کے ناجائز استعمال اور غیر ملکی ریاستوں، بالخصوص بھارت کو حساس دفاعی ڈیٹا فراہم کرنے کے سنگین الزامات میں گرفتار ہیں۔
یہ واقعہ صرف ایک شخص کی بدعنوانی نہیں بلکہ بھارت کے اس دیرینہ خفیہ منصوبے کی جھلک ہے جس کے تحت وہ مغربی اداروں میں اثر انداز ہو کر اپنے مفادات کے لیے حساس معلومات حاصل کرتا ہے۔
ایشن جے ٹیلس ایک معروف بھارتی نژاد امریکی سکالر اور سابق سفارتی مشیر ہیں جنہوں نے کئی دہائیوں تک امریکی محکمہ دفاع، محکمہ خارجہ اور تھنک ٹینکس میں نمایاں کردار ادا کیا۔ وہ اس وقت کارنیگی انڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس سے وابستہ تھے اور بھارت امریکہ تعلقات کے ماہر سمجھے جاتے تھے۔ 11 اکتوبر 2025 کو ورجینیا کے شہر ویانا سے ان کی اچانک گرفتاری نے امریکی پالیسی اور فکری حلقوں میں بھونچال پیدا کر دیا۔
تفتیشی ٹیم نے ان کے گھر سے درجنوں خفیہ دستاویزات، ٹاپ سیکرٹ اور سیکرٹ درجے کی فائلیں اور ایسا مواد برآمد کیا جو واضح طور پر قومی سلامتی کے قوانین کی سنگین خلاف ورزی ظاہر کرتا تھا۔ امریکی تفتیش حکام کے مطابق ایشن ٹیلس نے برسوں سے خفیہ مواد اکٹھا کر رکھا تھا۔ نگرانی کی فوٹیج میں انہیں محکمہ دفاع اور محکمہ خارجہ کی عمارتوں سے خفیہ ریکارڈ پرنٹ کرنے اور اسے اپنے بیگ میں چھپاتے ہوئے دیکھا گیا۔
عدالتی دستاویزات سے معلوم ہوا ہے کہ 2022 سے 2025 کے درمیان ٹیلس کی چینی سرکاری اہلکاروں سے متعدد خفیہ ملاقاتیں ہوئیں۔ ان میں سے ایک ملاقات میں انہیں ایک لفافہ دیتے اور دوسرے موقع پر سرخ رنگ کے تحفے والے تھیلے میں کچھ وصول کرتے ہوئے ریکارڈ کیا گیا۔
یہ شواہد بتاتے ہیں کہ وہ امریکہ کے حساس دفاعی منصوبوں کی معلومات بھارت اور ممکنہ طور پر دیگر ممالک کو فراہم کر رہے تھے۔ ٹیلس کا معاملہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ماضی میں بھی بھارت نے اپنے شہریوں اور ڈائسپورا نیٹ ورک کے ذریعے مغربی ممالک میں اثر و رسوخ قائم کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ بھارتی لابی واشنگٹن، لندن اور کینیڈا میں کئی دہائیوں سے سرگرم ہے۔
امریکی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی نژاد افراد اعتماد حاصل کرنے اور پھر اسی اعتماد کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کی منظم پالیسی پر عمل کرتے ہیں۔ ایشن ٹیلس کا کیس اس پالیسی کا واضح ثبوت ہے جس میں ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص نے اپنے علمی مقام کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالا۔
یہ وہی ایشن ٹیلس ہے جس نے 2005 میں بھارت امریکہ سول نیوکلیئر معاہدے کی راہ ہموار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ اس وقت انہیں بھارتی مفادات کے غیر رسمی سفیر کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ وہ بارہا امریکی حکومت کو قائل کرتے رہے کہ بھارت پر اعتماد کیا جائے اور اسے جوہری ٹیکنالوجی تک رسائی دی جائے۔
تحقیقات سے پتہ چلا کہ ایشن ٹیلس نے ہزاروں صفحات پر مشتمل خفیہ مواد اپنے گھر پر جمع کر رکھا تھا۔ ان میں امریکی دفاعی منصوبوں، انٹیلی جنس رپورٹوں اور غیر ملکی پالیسی حکمت عملیوں سے متعلق تفصیلات شامل تھیں۔ امریکی محکمہ انصاف کے مطابق ٹیلس کا مقصد یہ معلومات بھارت کو منتقل کرنا تھا تاکہ نئی دہلی اپنی دفاعی اور خارجہ پالیسی امریکی پالیسی سے پہلے سمجھ سکے۔
یہ اقدام نہ صرف امریکہ کے لیے شرمناک ہے بلکہ بھارت کے سٹریٹیجک پارٹنر ہونے کے دعووں پر سوالیہ نشان بھی لگا دیتا ہے۔ امریکہ میں مقیم بھارتی نژاد افراد کی بڑی تعداد مختلف حساس اداروں میں خدمات انجام دے رہی ہے۔ اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ کیا یہ نیٹ ورک منظم انداز میں بھارت کے لیے خفیہ معلومات جمع کر رہا ہے؟
امریکی تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت طویل عرصے سے Soft Espionage یعنی نرم جاسوسی کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے، جس کے تحت وہ تعلیم، ٹیکنالوجی اور تحقیقی اداروں کے ذریعے معلومات حاصل کرتا ہے۔
اس پالیسی کے تحت بھارتی لابی نے H1B ویزا پروگرام کا ناجائز استعمال کیا، جس سے لاکھوں امریکی شہریوں کے روزگار پر اثر پڑا۔ اب جب کہ ٹیلس جیسے افراد کا کردار سامنے آ رہا ہے، واشنگٹن میں بھارتی ڈائسپورا پر عدم اعتماد بڑھتا جا رہا ہے۔
کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے مبینہ قتل اور سازشوں کے بعد ایشن ٹیلس کا کیس ایک نیا موڑ ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بھارت اب صرف سفارتی یا تجارتی اثر و رسوخ تک محدود نہیں بلکہ مغربی دنیا کے اندرونی نظاموں میں مداخلت کر رہا ہے۔
کینیڈا میں سکھ رہنما ہرجیت سنگھ نجر کے قتل اور امریکہ میں خالصتان تحریک کے رہنماؤں پر حملوں کے واقعات کے بعد یہ واضح ہو گیا ہے کہ بھارت اپنی خفیہ سرگرمیوں کے لیے عالمی سرزمین کو میدان جنگ بنا چکا ہے۔
ایشن ٹیلس اسکینڈل نے دنیا کو ایک بار پھر یہ باور کرایا ہے کہ قول و فعل میں تضاد بھارت کی فطرت میں شامل ہے۔ ایک طرف وہ جمہوریت اور بھائی چارے کا نعرہ لگاتا ہے، دوسری طرف دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔
یہی وہ رویہ ہے جس نے بھارت کو دنیا بھر میں غیر معتبر اور ناقابل اعتماد ملک بنا دیا ہے۔ اس کی خفیہ ایجنسی را (RAW) پہلے ہی متعدد ممالک میں غیر قانونی کارروائیوں، قتل و سازشوں میں ملوث پائی جا چکی ہے۔
واشنگٹن کے پالیسی حلقے اس بات پر سخت پریشان ہیں کہ ایک شخص جسے قومی سلامتی کے حساس ترین منصوبوں تک رسائی حاصل تھی، وہ برسوں تک بغیر کسی شک کے جاسوسی کرتا رہا۔ امریکی تجزیہ کار اب مطالبہ کر رہے ہیں کہ بھارت سے تعلق رکھنے والے تمام اعلیٰ افسران اور کنٹریکٹرز کی مکمل چھان بین کی جائے تاکہ قومی سلامتی کو مزید خطرات سے بچایا جا سکے۔
جس ملک کے دانشور، سفیر اور ماہرین مغربی ممالک میں بیٹھ کر اپنے ہی میزبان ملک کے خلاف سازش کریں، وہ ملک عالمی برادری کے لیے ایک خفیہ خطرہ بن چکا ہے۔
دنیا کو اب سمجھ آ رہا ہے کہ بھارت کی توسیع پسندانہ سوچ صرف خطے تک محدود نہیں بلکہ وہ اپنے مفادات کے لیے عالمی اعتماد کو بھی پامال کرنے سے دریغ نہیں کرتا۔
امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپ سب کو اب ایک حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ بھارت کی جمہوریت کا چہرہ محض نقاب ہے، جس کے پیچھے مفاد پرستی، دوغلا پن اور عالمی جاسوسی کا منظم نیٹ ورک چھپا ہوا ہے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ڈاکٹر مجدد نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ پروفیسر ہیں۔ وہ تین ماسٹرز ڈگریوں اور اسٹریٹجک اسٹڈیز میں پی ایچ ڈی کے حامل ہیں۔ وہ پاکستان ایئر فورس میں ۳۳ سال خدمات انجام دینے والے سابق کمیشنڈ آفیسر بھی رہ چکے ہیں۔
View all posts