Nigah

یورپ بھارت اسٹریٹجک معاہدہ انسانی حقوق کی پامالیوں کی تائید ؟

17 ستمبر 2025 کو یورپی یونین نے نیو سٹریٹیجک یورپ ہند ایجنڈا پیش کیا ایک ایسا معاہدہ جو بظاہر اقتصادی تعاون، تجارتی مفادات اور سکیورٹی اشتراک کے فروغ کے لیے تیار کیا گیا ہے مگر اس کے اندر چھپی سیاسی ترجیحات اور جمہوری اصولوں سے انحراف نے عالمی سطح پر سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ اس معاہدے میں فری ٹریڈ ایگریمنٹ (ایف ٹی اے)، انویسٹمنٹ پروٹیکشن ایگریمنٹ (آئی پی اے) اور جیوگرافیکل انڈیگیشنز (جی آئی) جیسے پہلو شامل ہیں لیکن سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ یہ ایجنڈا ایک ایسے بھارت کے ساتھ تشکیل دیا جا رہا ہے جو مسلسل انسانی حقوق کی پامالیوں، مذہبی اقلیتوں کے استحصال اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں غیر قانونی قبضے میں ملوث ہے۔ پاکستان کے لیے یہ پیش رفت نہ صرف خطے میں طاقت کے توازن کو متاثر کرنے والی ہے بلکہ بین الاقوامی قانون، انصاف اور یورپ کی اخلاقی ساکھ کے لیے بھی ایک امتحان بن چکی ہے۔ یورپ ہند سٹریٹجک ایجنڈا محض ایک اقتصادی دستاویز نہیں بلکہ ایک سیاسی علامت ہے جو یورپ کی جانب سے بھارت کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو عملی طور پر جائز قرار دینے کے مترادف ہے۔
اس معاہدے کے ذریعے یورپی یونین بھارت کو ایک جمہوری پارٹنر کے طور پر تسلیم کر رہی ہے حالانکہ خود یورپی پارلیمان کی متعدد رپورٹس بھارت میں مذہبی اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں، مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو اور میڈیا بلیک آؤٹ، اختلاف رائے رکھنے والوں کے خلاف انسداد دہشت گردی قوانین کے غلط استعمال پر گہری تشویش ظاہر کر چکی ہیں۔ یہ معاہدہ یورپ کے انسانی حقوق کے چارٹر سے متصادم ہے کیونکہ وہی یورپ جو ماضی میں میانمار، بیلاروس یا ایران کے خلاف انسانی حقوق کی بنیاد پر تجارتی پابندیاں عائد کرتا رہا آج بھارت کے معاملے میں دہرا معیار اپنائے ہوئے ہیں۔
یورپ نے اس معاہدے میں اپنے جمہوری اقدار پر اقتصادی مفادات کو فوقیت دی ہے۔ بھارت میں آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) اور انسداد غیر قانونی سرگرمیاں ایکٹ (یو اے پی اے) جیسے قوانین کے تحت عام شہریوں، طلبہ، صحافیوں حتیٰ کہ انسانی حقوق کے کارکنوں کو بھی بغیر کسی عدالتی کارروائی کے حراست میں رکھا جا سکتا ہے۔ یہی قوانین مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے ہاتھوں ہونے والے ماورائے عدالت قتل اور جبری گمشدگیوں کے لیے قانونی ڈھال فراہم کرتے ہیں۔ یورپ کا بھارت کے ساتھ اس نوعیت کا معاہدہ دراصل ان سخت گیر پالیسیوں کی خاموش منظوری کے مترادف ہے۔ اگر یورپ واقعی جمہوری اصولوں اور شفاف طرز حکمرانی پر یقین رکھتا ہے تو اسے بھارت کے ساتھ کسی بھی سٹریٹجک یا تجارتی شراکت سے قبل انسانی حقوق کی واضح شرائط طے کرنی چاہییں جیسا کہ وہ دیگر ممالک کے ساتھ کرتا ہے۔

یورپ بھارت اسٹریٹجک معاہدہ انسانی حقوق کی پامالیوں کی تائید ؟
یورپی یونین کے ساتھ بھارت کی قریبی قربت ایسے وقت میں بڑھائی جا رہی ہے جب بھارت میں اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں اور عیسائیوں پر جبر، قتل و غارت اور نفرت انگیز مہمات عروج پر ہیں۔ گاؤ رکشا کے نام پر مسلمانوں کا قتل، مذہبی تبدیلی کے سخت قوانین، گرجا گھروں پر حملے اور نصابی کتب میں اقلیتوں کی منفی تصویر کشی بھارت کے معاشرتی زوال کی علامت ہے۔ ایسے حالات میں یورپ کا بھارت کے ساتھ تجارتی تعلقات کو وسعت دینا اس بات کا اشارہ ہے کہ مغرب کے لیے انسانی حقوق صرف سیاسی ہتھیار ہیں جنہیں وہ اپنے مفاد کے مطابق استعمال کرتا ہے۔
یورپی یونین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ بھارت میں جمہوریت کا لبادہ محض ایک ظاہری نقاب ہے جس کے پیچھے آر ایس ایس کی انتہا پسند سوچ کارفرما ہے جو بھارت کو ایک ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہے۔ اسی ایجنڈے کا سب سے سنگین پہلو یہ ہے کہ اس میں بھارت کی تمام ریاستوں کو شامل کیا گیا ہے بشمول مقبوضہ جموں و کشمیر اور لداخ، جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ایک متنازع علاقہ ہے۔ یورپ کے اس معاہدے میں مقبوضہ جموں و کشمیر کو بھارت کے حصے کے طور پر شامل کرنا بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ یورپی یونین نے اپنے ہی اصولوں کو پامال کیا ہے کیونکہ یورپ ہمیشہ متنازعہ علاقوں پر غیر جانبداری کی پالیسی بناتا ہے۔ یہ طرز عمل نہ صرف کشمیری عوام کے حق خود ارادیت سے انحراف ہے بلکہ یہ دنیا کو یہ پیغام دیتا ہے کہ طاقتور ممالک کے خلاف عالمی قوانین کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہی۔
بھارت اب یورپین ایف ٹی اے اور دیگر تجارتی معاہدوں کے ذریعے خطے میں اپنی اقتصادی اجارہ داری مضبوط کر رہا ہے جس کے نتیجے میں پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس پر بھی خطرات منڈلا رہے ہیں۔

بھارت یورپی پالیسی سازوں پر دباؤ ڈال رہا ہے کہ پاکستان کے جی ایس پی پلس اسٹیٹس پر نظر ثانی کریں، جس سے پاکستان کی برآمدات خاص طور پر ٹیکسٹائل، لیدر اور زرعی مصنوعات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

بھارت اپنے تجارتی اور سیاسی اثر و رسوخ کے ذریعے نہ صرف خطے کے چھوٹے ممالک کو اقتصادی طور پر کمزور کرنے کی کوشش کر رہا ہے بلکہ یورپ میں پاکستان مخالف لابنگ کے ذریعے اسے سفارتی طور پر تنہا کرنے کے منصوبے پر عمل پیرا ہے۔
یورپ طویل عرصے سے خود کو انسانی حقوق، جمہوریت اور شفافیت کا علمبردار قرار دیتا ہے لیکن یورپ بھارت ایف ٹی اے اور سٹریٹجک ایجنڈا اس کی ساکھ کو بری طرح متاثر کر سکتا ہے۔ اگر یورپ نے بھارت جیسے ملک کے ساتھ، جو اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق پامال کر رہا ہے، بغیر کسی نگرانی یا جواب دہی کے معاہدے کیے تو یہ یورپ کے اخلاقی موقف کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائے گا۔
یہ معاہدہ یورپ کے انسانی حقوق کے بیانیے کو کمزور کرے گا اور عالمی سطح پر دوہرے معیار کے تصور کو مزید تقویت دے گا، جہاں قصور صرف کمزور ممالک کے لیے لاگو ہوتے ہیں۔ اگر یورپی یونین واقعی عالمی امن، جمہوری حقوق اور انسانی وقار پر یقین رکھتی ہے تو اسے بھارت کے ساتھ سٹریٹجک تعلقات پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ایک ایسے ملک کے ساتھ شراکت داری جو اقلیتوں کو نشانہ بنا رہا ہے، اختلافِ رائے کو جرم بنا چکا ہے اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی المیہ پیدا کر چکا ہے، یورپ کی اخلاقی پوزیشن کو کمزور کرتی ہے۔ یورپی یونین کو اپنے تجارتی مفادات کو انسانی حقوق پر غالب نہ آنے دینا چاہیے اور بھارت کو جواب دہ بنانا چاہیے تاکہ جنوبی ایشیا میں ایک پائیدار، منصفانہ اور امن پر مبنی نظام قائم ہو سکے۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر مزمل خان

    مزمل خان سیاست اور بین الاقوامی معاشیات میں گہری دلچسپی کے ساتھ، ان کا تعلیمی کام اس بات کی کھوج کرتا ہے کہ کس طرح بنیادی ڈھانچہ اور جغرافیائی سیاسی حرکیات تجارتی راستوں اور علاقائی تعاون کو متاثر کرتی ہیں، خاص طور پر جنوبی اور وسطی ایشیا میں۔ موزممل شواہد پر مبنی تحقیق کے ذریعے پالیسی مکالمے اور پائیدار ترقی میں حصہ ڈالنے کے لیے پرجوش ہے اور اس کا مقصد تعلیمی انکوائری اور عملی پالیسی سازی کے درمیان فرق کو ختم کرنا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔