افغانستان کی حالیہ آبی حکمت عملی خطے میں ایک نئے تناؤ کا پیش خیمہ بن رہی ہے کنڑ اور کابل ندیوں پر ڈیموں کی تعمیر کے بیانات ایک ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب کابل کے اندرونی سیاسی حالات غیر یقینی اور اس کے بیرونی تعلقات دباؤ کا شکار ہیں ماہرین کے مطابق افغانستان کا یہ رویہ خطے کی آبی سلامتی اور دو طرفہ تعلقات کے لیے چیلنج بن سکتا ہے۔ پاکستان کی نظر میں کابل کی یہ حکمت عملی بھارت کے زیر اثر اس واٹر ویپینائزیشن کی عکاسی کرتی ہے جو پہلے ہی خطے میں خطرناک مثال قائم کر چکی ہے پاکستان کا موقف واضع ہے یہ پانی کسی قوم کی بقا اور امن کے لیے بنیادی عنصر ہے اور اس کا استعمال سیاسی دباؤ یا علاقائی اثر و رسوخ کے حصول کے لیے نہیں ہونا چاہیے اسی لیے اسلام آباد کو ایک ایسا متوازن، پر اعتماد اور حقیقت پر مبنی بیانیہ اپنانا چاہیے جو پاکستان کو خطے کا ذمہ دار اسٹیک ہولڈر ظاہر کرے،جب کہ کابل کے یکطرفہ اقدامات کو سیاسی مایوسی اور بیرونی اثرات کا نتیجہ قرار دے۔
افغانستان کے آبی وسائل پانچ بڑے دریائی طاسوں پر مشتمل ہیں۔ ان میں دریائے آمو، سندھ، کابل، شمالی، ہریرود مرگاب اور ہلمند شامل ہیں۔
ان میں سے سندھ کابل طاس پاکستان کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے کیونکہ یہی طاس دونوں ممالک کے درمیان آبی ربط کی بنیاد ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان نو دریا مشترک ہیں تین خیبر پختونخوا سے اور چھ بلوچستان سے گزرتے ہیں۔ سالانہ اوسطاً 23 ملین ایکڑ فٹ (MAF) پانی افغانستان سے پاکستان آتا ہے، جس میں سے 17.5 MAF صرف دریائے کابل کا حصہ ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ دریائے چترال، جو پاکستان سے نکلتا ہے، افغانستان میں داخل ہو کر کابل دریا میں شامل ہوتا ہے اور پھر دوبارہ پاکستان میں داخل ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی تقریباً 80 فیصد زراعت اس نظامِ آب پر منحصر ہے۔
افغانستان فی الحال مشترکہ دریاؤں سے 1.8 MAF پانی استعمال کر رہا ہے، اور 2030 تک اسے دوگنا کر کے 3.6 MAF تک لے جانے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ اس مقصد کے لیے کابل حکومت نے 200 پن بجلی منصوبے اور 12 نئے ڈیم بنانے کا اعلان کیا ہے، جن کے لیے کم از کم 3 ارب امریکی ڈالر درکار ہوں گے۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ 2011 میں بھارت نے 12 ڈیم منصوبوں کے لیے 2 ارب ڈالر دینے کا وعدہ کیا تھا، مگر پیش رفت صرف فزیبلٹی اسٹڈیز تک محدود رہی۔ اس کے باوجود، نئی دہلی کی تکنیکی اور مالی معاونت آج بھی افغانستان کی آبی پالیسی میں نمایاں ہے۔
اگر افغانستان واقعی نئے اپ اسٹریم ڈیم تعمیر کرتا ہے تو ماہرین کے مطابق اس سے پاکستان کے سندھ طاس میں 5 فیصد تک پانی کی کمی واقع ہوسکتی ہے، جس کے نتیجے میں ربیع کی فصل کے لیے 0.75 MAF اور خریف کی فصل کے لیے 3.7 MAF تک پانی کم ہو جائے گا۔ ایک ایسی صورتحال جو زرعی معیشت اور فوڈ سکیورٹی کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔
اس وقت سب سے بڑا خلاء یہ ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی باضابطہ آبی معاہدہ موجود نہیں۔ اگرچہ 2003 سے 2014 تک متعدد مذاکرات ہوئے، مگر پانی کے بہاؤ کی تقسیم پر کوئی اتفاق رائے نہ بن سکا۔ اس کے برعکس پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 کا انڈس واٹر ٹریٹی ایک واضح فریم ورک مہیا کرتا ہے، جس کی بدولت کئی تنازعات کو سفارتی سطح پر حل کیا گیا۔
اسلام آباد کے نزدیک افغانستان اس وقت سیاسی، مالی اور انتظامی لحاظ سے ایک غیر مستحکم ریاست ہے۔ غیر تسلیم شدہ حکومت، منجمد اثاثے اور بین الاقوامی پابندیاں اسے ایسے بڑے آبی منصوبے خود سے مکمل کرنے کے قابل نہیں چھوڑتیں۔ چنانچہ کابل کے ڈیموں سے متعلق بیانات اور سرگرمیاں زیادہ تر بیرونی حوصلہ افزائی اور سیاسی علامت کے طور پر دیکھی جا رہی ہیں۔
پاکستانی حکام کے مطابق، اس صورتِ حال سے سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہوتا ہے۔ وہی بھارت جو مئی 2025 میں اپنی عسکری ناکامی اور سفارتی تنہائی کے بعد خطے میں بالواسطہ اثر و رسوخ بحال کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ بھارت کی حکمتِ عملی یہ ہے کہ افغانستان کو آبی منصوبوں کے ذریعے پاکستان کے خلاف ایک پنسر چال کے طور پر استعمال کرے، تاکہ اسلام آباد کو پانی اور سکیورٹی کے دوہری دباؤ میں لایا جا سکے۔

کابل کے ڈیم منصوبے محض تکنیکی ترقی نہیں بلکہ ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں، جن کا مقصد پاکستان پر سفارتی دباؤ بڑھانا اور اسے ٹی ٹی پی اور بی ایل اے جیسے گروہوں کے مسئلے کو اُٹھانے سے باز رکھنا ہے۔
پاکستان کا مؤقف اصولی ہے کہ وہ افغانستان کے پانی کے جائز استعمال کے حق کو تسلیم کرتا ہے، مگر یہ سب باہمی معاہدے کے تحت ہونا چاہیے۔ اسلام آباد کو بطور نچلے ریپیرین، پانی کے مساوی استعمال، اوپر کی سطح پر ہونے والے نقصان سے تحفظ، اور شفاف ڈیٹا شیئرنگ کے حق حاصل ہیں۔ یہ اصول عالمی آبی قانون میں تسلیم شدہ ہیں۔
بھارت نے ماضی میں سندھ طاس معاہدے کو بارہا سیاسی دباؤ کے لیے استعمال کیا۔ اب وہ افغانستان کو بھی اسی ماڈل پر لانے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ پاکستان کے خلاف دوہری آبی محاذ کھولا جا سکے۔
اگر کابل بھارت کی آبی حکمتِ عملی کو اپناتا ہے تو خطے میں ایک نئی آبی جارحیت کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔
یہ صورتحال صرف پاکستان اور افغانستان تک محدود نہیں رہے گی بلکہ خطے کے استحکام کے لیے سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔ مصر اور ایتھوپیا کے درمیان نیل دریا کے تنازعہ کی مثال واضح کرتی ہے کہ اگر پانی کے بہاؤ کو سیاسی ہتھکنڈا بنایا جائے تو یہ بقا کی جنگوں کو جنم دے سکتا ہے۔
اسلام آباد سمجھتا ہے کہ پانی پر باہمی معاہدے کی عدم موجودگی نہ صرف دونوں ممالک کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ خطے کی سلامتی کے لیے بھی چیلنج ہے۔ اسی لیے پاکستان چاہتا ہے کہ پانی کی تقسیم کا معاملہ کثیرالجہتی فورمز جیسے ماسکو فارمیٹ، کواڈلیٹرل گروپ (روس، چین، پاکستان، افغانستان)، اور چین، پاکستان، افغانستان سہ فریقی مذاکرات میں شامل کیا جائے، تاکہ مسئلے کو عالمی فریم ورک کے ذریعے حل کیا جا سکے۔
پاکستان کا مؤقف واضح، قانونی اور حقیقت پر مبنی ہے۔
وہ افغانستان کے پانی کے جائز استعمال کے حق کو تسلیم کرتا ہے، لیکن یکطرفہ اقدامات کی مخالفت کرتا ہے۔ پاکستان چاہتا ہے کہ انڈس واٹر ٹریٹی جیسے ماڈل کو بطور مثال استعمال کر کے ایک پاک افغان آبی معاہدہ تشکیل دیا جائے۔ پاکستان خطے میں آبی سیاست کے بجائے تعاون پر مبنی انتظام کو فروغ دینا چاہتا ہے، تاکہ پانی کو تنازع نہیں بلکہ ترقی اور استحکام کا ذریعہ بنایا جا سکے۔ اسلام آباد اس مؤقف پر قائم ہے کہ افغانستان کے ڈیم منصوبے اگر بین الاقوامی اصولوں اور باہمی اعتماد پر مبنی ہوں تو پاکستان تعاون کے لیے تیار ہے، لیکن اگر یہ منصوبے کسی تیسرے ملک کے اثر میں آ کر دریاؤں کے بہاؤ میں کمی یا سیاسی دباؤ کا ذریعہ بنیں تو پاکستان اپنے قومی مفادات کے تحفظ کے لیے ہر سطح پر آواز اٹھائے گا۔
کابل اور اسلام آباد اسے تنازع کی بجائے تعاون کا محور بنا لیں تو یہ نہ صرف دونوں ممالک کی زراعت، توانائی اور معیشت کے لیے مفید ہوگا بلکہ پورے خطے کے لیے پائیدار امن کی بنیاد بھی رکھ سکتا ہے۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ظہیرال خان ایک مضبوط تعلیمی اور پیشہ ورانہ پس منظر کے ساتھ، وہ بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتا ہے اور بڑے پیمانے پر سیکورٹی اور اسٹریٹجک امور کے ماہر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
View all posts
