Nigah

بھارت کی تحفظ پسندانہ تجارتی پالیسی مواقع اور مضمرات

بھارت کی تحفظ پسندانہ تجارتی پالیسی مواقع اور مضمرات

عالمی تجارت کے موجودہ دور میں جہاں ممالک تجارتی آزادیاں بڑھا کر سرمایہ کاری اور ترقی کو فروغ دے رہے ہیں. وہیں ہندوستان نے اپنے تجارتی رویے میں ایک نمایاں تحفظ پسندانہ رخ اختیار کر رکھا ہے۔ آٹوموبائل، زراعت اور صنعتی مصنوعات کے شعبوں میں اس کے بلند محصولات اور غیر محصولات رکاوٹوں نے نہ صرف یورپی یونین بلکہ امریکہ اور دیگر بڑی معیشتوں کے ساتھ مذاکرات کو متاثر کیا ہے۔ نتیجتاً بھارت کو بین الاقوامی برادری میں ایک مشکل تجارتی شراکت دار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
ہندوستان اور یورپی یونین کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے (FTA) پر بات چیت 2007 سے جاری ہے. مگر اب تک کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہو سکی۔ اس جمود کی بنیادی وجہ بھارت کے غیر معمولی بلند درآمدی محصولات ہیں۔
زرعی شعبے میں اوسط ٹیرف 38 فیصد سے زیادہ ہے جبکہ صنعتی مصنوعات پر یہ شرح 15 فیصد سے کم نہیں۔ آٹوموبائل، شراب اور پروسسڈ فوڈ پر تو یہ ٹیرف 60 سے 100 فیصد تک جا پہنچتا ہے. جو عالمی معیار سے کئی گنا زیادہ ہے۔
اس کے مقابلے میں یورپی یونین کا اوسط صنعتی ٹیرف 5 فیصد سے کم ہے.جس کی وجہ سے مارکیٹ تک رسائی میں واضح عدم توازن پیدا ہوا ہے۔
2024 میں بھارت نے یورپی یونین کو 75.85 بلین ڈالر کی برآمدات جبکہ 60.68 بلین ڈالر کی درآمدات کیں. لیکن اس دوران بھی اس نے بلند محصولات اور غیر محصولات رکاوٹوں کو برقرار رکھا۔ تاکہ اپنی برآمدی برتری کو بچایا جا سکے۔
برسلز نے بارہا نئی دہلی پر زور دیا ہے کہ وہ کاروں، الیکٹرانکس اور زرعی مصنوعات کے نرخ کم کرے تاکہ منصفانہ مسابقت ممکن ہو سکے۔ مگر بھارت نے اس حوالے سے مزاحمتی رویہ اپنایا ہے۔ یورپی یونین کے نئے ماحولیاتی ضوابط CBAM (Carbon Border Adjustment Mechanism) اور CSRD (Corporate Sustainability Reporting Directive) کے خلاف بھارتی ردعمل نے مذاکرات مزید پیچیدہ بنا دیے ہیں۔
امریکہ کے ساتھ بھارت کے تجارتی تعلقات بھی اسی تحفظ پسندی کا شکار ہیں۔ یو ایس ٹی آر (USTR) نے بھارت کو دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل کیا ہے جہاں درآمدی ٹیرف سب سے زیادہ ہیں۔

ٹیرف ریٹ تقریباً 17 فیصد ہے۔ جب کہ زرعی مصنوعات
بھارت کی اوسط MFN ٹیرف ریٹ تقریباً 17 فیصد ہے۔ جب کہ زرعی مصنوعات پر یہ شرح 39 فیصد تک پہنچتی ہے۔
امریکی مصنوعات پر عائد ڈیوٹیوں کی نوعیت دیکھی جائے تو تصویر مزید واضح ہو جاتی ہے۔
سبزیوں کے تیل پر 45 فیصد، موٹر سائیکلوں پر 50 فیصد، آٹوموبائل پر 60 فیصد اور قدرتی ربڑ پر 70 فیصد ڈیوٹی عائد ہے۔ اسی طرح الکحل، کافی، اخروٹ اور کشمش پر 100 سے 150 فیصد ڈیوٹی کی شرح ہے۔
یہ سخت ڈیوٹیاں امریکی برآمد کنندگان کے لیے بھارت کو ایک غیر مساوی منڈی بناتی ہیں۔ رواں سال میں امریکہ نے اس کے ردعمل میں بھارتی مصنوعات پر 50 فیصد انتقامی محصولات عائد کیے۔ جس سے 48 بلین ڈالر کی برآمدات متاثر ہوئیں۔ نتیجتاً صرف چار ماہ میں بھارت کی امریکہ کو برآمدات میں 37.5 فیصد کمی واقع ہوئی۔
تاہم، حالیہ مذاکرات میں دونوں ممالک محصولات کو 15 سے 16 فیصد تک کم کرنے کے طریقہ کار پر بات کر رہے ہیں۔ بشرطیکہ بھارت بعض غیر محصولات اقدامات میں نرمی لائے۔
2024 میں بھارت کا اوسط MFN نافذ شدہ ٹیرف 15.9 فیصد تھا۔ جو عالمی اوسط 8 فیصد سے تقریبا دگنا ہے۔ اگرچہ بھارت عالمی تجارتی تنظیم (WTO) کے تحت اپنے ٹیرف کی بالائی حدود سے تجاوز نہیں کر سکتا۔ لیکن اس نے حد کے اندر رہتے ہوئے بھی محصولات کو خطرناک حد تک بلند رکھا ہے۔
2017 سے 2019 کے درمیان بھارت نے 2300 سے زیادہ مصنوعات پر محصولات میں اضافہ کیا۔ ان میں سے 45 فیصد مصنوعات کا تعلق ٹیکسٹائل، جوتوں، الیکٹرانکس اور صارفین کے سامان سے تھا۔

یہ پالیسی بظاہر “میک اِن انڈیا” کے فروغ کے لیے اپنائی گئی، مگر اس نے غیر ملکی سرمایہ کاروں کے اعتماد کو نقصان پہنچایا۔

جاپان، یورپی یونین اور امریکہ سمیت کئی ممالک نے بھارت کے اس رویے پر WTO میں اعتراضات جمع کرائے کہ یہ پالیسی عالمی سپلائی چین کو مسخ کر رہی ہے۔
محصولات کے علاوہ بھارت نے غیر محصولات رکاوٹوں (NTBs) کو بھی وسیع پیمانے پر نافذ کیا ہوا ہے۔ جو درآمد کنندگان کے لیے اضافی مشکلات پیدا کرتی ہیں۔
ان میں درآمدی لائسنسنگ کی لازمی شرائط، استعمال شدہ اشیاء پر پابندی، مقدار کی حد (Quota Control) اور لازمی مقامی ٹیسٹنگ اور سرٹیفکیشن شامل ہیں۔
2024 تک بھارت میں 1 ہزار سے زائد کوالٹی کنٹرول آرڈرز نافذ تھے۔ جنہوں نے سٹیل، کھلونوں، کیمیکلز، دواسازی اور الیکٹرانکس کے شعبوں میں غیر ملکی رسائی کو مشکل بنا دیا۔
یہ اقدامات عالمی تجارتی اصولوں سے متصادم ہیں کیونکہ وہ تکنیکی رکاوٹوں (TBT) اور سینیٹری و فائٹو سینیٹری اقدامات (SPS) کے ذریعے مارکیٹ تک رسائی کو محدود کرتے ہیں۔
نتیجتا بھارت اپنی معیشت کے حجم کے باوجود ایک "مشکل منڈی” کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
بھارت کی پالیسی کا بنیادی محرک اپنی گھریلو صنعت کا تحفظ ہے۔ نئی دہلی کی حکمت عملی ہے کہ درآمدی مسابقت گھریلو صنعت کو نقصان پہنچاتی ہے۔ لہٰذا درآمدات پر سخت کنٹرول ضروری ہے۔

کے حجم کے باوجود ایک
تاہم اس حکمت عملی نے بھارت کو عالمی تجارت سے الگ تھلگ کر دیا ہے۔
"میک ان انڈیا” اور "آتمن نربھر بھارت" جیسے نعرے خودکفالت کے نام پر ایسے اقدامات کو جواز فراہم کرتے ہیں جو حقیقتاً تحفظ پسندی کو تقویت دیتے ہیں۔
غیر ملکی سرمایہ کار بھارت میں داخل ہونے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ انہیں سخت محصولات، پیچیدہ قواعد اور سرمایہ کاری کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین، امریکہ اور جاپان جیسے ممالک بھارت سے زیادہ ویت نام، بنگلہ دیش اور انڈونیشیا کو ترجیح دے رہے ہیں۔
بھارت کی سخت تجارتی پالیسی نے پاکستان کے لیے بھی ایک موقع پیدا کیا ہے۔ یورپی یونین اور امریکہ جیسی بڑی منڈیاں اب ایسے ممالک کی تلاش میں ہیں جہاں منصفانہ تجارتی رسائی، شفاف ضوابط اور مسابقتی شرحیں دستیاب ہوں۔
پاکستان اگر اپنے صنعتی زونز، آٹوموبائل اسمبلی یونٹس اور زرعی مصنوعات کی ویلیو ایڈیشن کو بہتر بنائے تو وہ بھارت کے متبادل کے طور پر ابھر سکتا ہے۔
سی پیک کے تحت بننے والی نئی راہیں اور خصوصی اقتصادی زونز غیر ملکی سرمایہ کاروں کو ایک بہتر ماحول فراہم کر رہے ہیں۔
پاکستان کے پاس یہ موقع ہے کہ وہ اپنی تجارتی پالیسی کو تحفظ پسندی کے بجائے سہولت کاری کی بنیاد پر استوار کرے۔ تاکہ بھارت کی سخت پالیسیوں سے مایوس ہونے والے سرمایہ کار پاکستان کی جانب متوجہ ہوں۔
دنیا کی معیشت اب یک طرفہ پالیسیاں برداشت نہیں کر سکتی۔ بھارت کی تحفظ پسندانہ پالیسی وقتی طور پر گھریلو صنعت کو بچا سکتی ہے۔ مگر طویل مدت میں اسے عالمی منڈیوں سے الگ کر دے گی۔
عالمی سپلائی چین کی ضرورت اعتماد، شفافیت اور باہمی احترام ہے ۔ نہ کہ بلند دیواروں اور بند منڈیوں کی۔
بھارت اگر خود کو حقیقی عالمی طاقت بنانا چاہتا ہے تو اسے تجارت میں کھلے پن، لچک اور پالیسی شفافیت اختیار کرنی ہوگی۔
دوسری جانب پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ ایک بہترین موقع ہے کہ وہ اعتدال، قانون پسندی اور شراکت داری کے ذریعے عالمی سرمایہ کاری کو اپنی طرف راغب کریں۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر محمد عبداللہ

    محمد عبداللہ آسٹن یونیورسٹی، برطانیہ میں بین الاقوامی تعلقات میں امیدوار۔ ان کی تحقیقی دلچسپیاں عالمی سلامتی، خارجہ پالیسی کے تجزیہ اور بین الاقوامی سفارت کاری کی ابھرتی ہوئی حرکیات پر مرکوز ہیں۔ وہ علمی گفتگو میں فعال طور پر مصروف ہیں اور جنوبی ایشیائی جغرافیائی سیاست اور کثیر جہتی تعلقات پر خاص زور دینے کے ساتھ علمی پلیٹ فارمز میں حصہ ڈالتے ہیں۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔