Nigah

آذربائیجان ،پاکستان چین اتحاد۔ بھارت کی سفارتی تنہائی کی نئی مثال

آذربائیجان ،پاکستان چین اتحاد۔ بھارت کی سفارتی تنہائی کی نئی مثال

2025 کے پاک بھارت محاذ آرائی نے نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پورے خطے کے اسٹریٹجک توازن کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ تاجکستان کے آئنی ایئر بیس سے بھارت کا انخلاء محض ایک فوجی فیصلہ نہیں بلکہ نئی دہلی کے کمزور ہوتے اثر و رسوخ، ناکام سفارت کاری اور علاقائی تنہائی کی علامت ہے۔ دو دہائیوں تک بھارت نے وسطی ایشیا میں اپنی موجودگی کو ایک اسٹریٹجک کامیابی کے طور پر پیش کیا تھا۔ لیکن اب یہ خواب بکھرتا دکھائی دیتا ہے۔
آئنی ایئر بیس جو تاجکستان کے دارالحکومت دوشنبے کے قریب واقع ہے۔ 2000 کی دہائی کے اوائل سے بھارت کی وسطی ایشیا میں طاقت کے مظاہرے کی علامت تھا۔ بھارت نے اسے افغانستان میں اپنی عسکری اور انٹیلی جنس سرگرمیوں کے لیے ایک اہم مرکز کے طور پر استعمال کیا۔ تاہم مئی 2025 کے بعد کے حالات نے بھارتی پالیسی سازوں کو اس حقیقت کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا کہ وسطی ایشیا میں اب ان کے لیے جگہ تنگ ہوتی جا رہی ہے۔
پاک بھارت محاذ آرائی کے دوران آذربائیجان، چین اور پاکستان کے اسٹریٹجک اتحاد نے خطے میں طاقت کے توازن کو دہلی کے خلاف موڑ دیا۔ تاجکستان، جو کبھی بھارت کا قریبی شراکت دار سمجھا جاتا تھا، اب تیزی سے چین اور پاکستان کے ساتھ علاقائی منصوبوں میں شامل ہو رہا ہے۔ آئنی بیس سے بھارت کا انخلاء اسی بدلتی ترجیح کا تسلسل ہے، جس نے نئی دہلی کو نہ صرف وسطی بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی دفاعی پوزیشن پر لا کھڑا کیا ہے۔
مئی 2025 کی جنگ کے دوران اور بعد میں بھارت کی سفارتی کوششیں ناکام رہیں۔ آذربائیجان نے کھلے عام پاکستان کی حمایت کر کے خطے میں طاقت کے توازن کو بدل دیا۔ یہ وہ لمحہ تھا جب بھارت کے "علاقائی رہنما” ہونے کا بیانیہ بری طرح مجروح ہوا۔
وسطی ایشیائی ممالک جیسے قازقستان، ازبکستان اور ترکمانستان نے بھی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو (BRI) کے ساتھ اپنی وابستگی مضبوط کی ہے، جس سے بھارت کے ’’کنیکٹیویٹی وژن‘‘ کی ساکھ مزید کمزور ہو گئی۔ تاجکستان نے بھارت کے ساتھ دفاعی تعلقات کو محدود کرتے ہوئے چینی سرمایہ کاری اور پاکستانی لاجسٹک نیٹ ورک کو ترجیح دی۔ یہ فیصلہ اس بات کی علامت ہے کہ دہلی کا اثر و رسوخ اب محض کاغذی بیانات تک محدود رہ گیا ہے۔

لمحہ تھا جب بھارت کے علاقائی رہنما ہونے کا بیانیہ
2003 میں بھارت نے تاجکستان میں آئنی ایئر بیس کے قیام کو اپنی بڑی تزویراتی کامیابی کے طور پر پیش کیا تھا۔ تاہم دو دہائی بعد یہی بیس بھارت کے زوال کی علامت بن گیا۔
2021 میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کا انخلاء کے بعد بھارت نے آئنی بیس کو "علاقائی استحکام” کے لیے استعمال کرنے کا عندیہ دیا تھا، لیکن حقیقت یہ تھی کہ تاجکستان اب چینی فنڈز اور پاکستانی تعاون کے ساتھ نئے ترقیاتی منصوبوں کا مرکز بن چکا تھا۔ مئی 2025 کی محاذ آرائی کے بعد بھارت کو مجبورا اپنا عسکری عملہ واپس بلانا پڑا۔

یہ ایسا فیصلہ ہے جو ’’تزویراتی ایڈجسٹمنٹ‘‘ نہیں بلکہ عملی پسپائی کی گونج رکھتا ہے۔

بھارت کی وسطی ایشیا میں موجودگی ہمیشہ چین کے اثر کے مقابلے میں محدود رہی۔ اس کے زیادہ تر منصوبے مالی وسائل کی کمی یا علاقائی سیاست میں جارحانہ مؤقف کے باعث غیر مقبول ثابت ہوئے۔
آئنی بیس کے انخلاء کے بعد بھارت کی وہاں کوئی مستقل عسکری یا اقتصادی موجودگی باقی نہیں رہی۔ قازقستان اور ازبکستان اب چین، روس اور پاکستان کے ساتھ توانائی، ٹرانسپورٹ اور سکیورٹی منصوبوں میں شراکت داری کو ترجیح دے رہے ہیں۔
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کے تحت تعمیر ہونے والا ’’پاکستان، چین، آذربائیجان کوریڈور‘‘ وسطی ایشیا کو جنوبی ایشیا سے جوڑ رہا ہے، جس میں بھارت کا کوئی کردار نہیں۔ یہ معاشی اور جغرافیائی تنہائی نئی دہلی کی ’’کنیکٹیویٹی سفارت کاری‘‘ کے زوال کو ظاہر کرتی ہے۔
رواں سال پاک بھارت محاذ آرائی کے بعد آذربائیجان کی کھلی حمایت پاکستان کے لیے ایک بڑی سفارتی کامیابی تھی۔ باکو نے نہ صرف پاکستان کے مؤقف کی تائید کی بلکہ توانائی، لاجسٹکس اور سکیورٹی تعاون کے نئے معاہدے بھی طے کیے۔
یہ اتحاد جس میں پاکستان، چین اور آذربائیجان شامل ہیں، وسطی ایشیا سے لے کر قفقاز تک نیا جغرافیائی محور تشکیل دے رہا ہے۔ اس اتحاد کی بنیاد توانائی راہداریوں، دفاعی تعاون اور امن و ترقی کے مشترکہ مفادات پر رکھی گئی ہے۔

لاجسٹکس اور سکیورٹی تعاون کے نئے
بھارت اس اتحاد کا حصہ بننے کے بجائے مخالف سمت میں کھڑا دکھائی دیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نئی دہلی اب خطے میں ردعمل دینے والی قوت بن چکی ہے۔
بھارت کے اندرونی مسائل نے بھی اس کی خارجہ پالیسی کو کمزور کیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی صورتِ حال، مذہبی انتہا پسندی، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور سیاسی تقسیم نے نئی دہلی کی بین الاقوامی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔
عالمی سطح پر بھارت کی شبیہہ ایک جارحانہ مگر غیر مؤثر ریاست کے طور پر ابھر رہی ہے، جو اپنی سفارتی ناکامیوں کو عسکری مظاہروں سے چھپانے کی کوشش کر رہی ہے۔
2025 کے تنازع کے بعد بھارت کو کئی یورپی اور ایشیائی دارالحکومتوں میں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ داخلی کمزوریاں اب خارجہ سطح پر واضح نظر آ رہی ہیں، جس سے بھارت کی علاقائی حرکت پذیری محدود ہو چکی ہے۔
انڈو پیسیفک خطہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ چین کی بڑھتی ہوئی تجارتی موجودگی، پاکستان کی بحالی پالیسی اور روس کی دفاعی حکمت عملی نے بھارت کے لیے جگہ کم کر دی ہے۔ بھارت کی ایکٹ ایسٹ پالیسی اور کنیکٹ سنٹرل ایشیا وژن دونوں ناکامی سے دوچار ہیں۔
اب جبکہ تاجکستان اور وسطی ایشیائی ممالک چین کے شنگھائی کواپریشن فریم ورک کے ذریعے قریب آ رہے ہیں، بھارت کو علاقائی فیصلوں سے باہر رکھا جا رہا ہے۔ طاقت کے مظاہرے کی وہی تقریریں جو دہلی کے پالیسی ساز کبھی فخر سے دہراتے تھے، اب حقیقت سے ٹکرا رہی ہیں۔ یعنی بیسز خالی، اتحادی دور اور بھارت کا اثر زائل ہو رہا ہے۔

تاجکستان کے آئنی ایئر بیس سے بھارت کا انخلاء ایک بڑی جغرافیائی تبدیلی کی علامت ہے۔

یہ محض عسکری فیصلہ نہیں بلکہ ایک ایسے دور کا اختتام ہے جس میں بھارت خود کو وسطی ایشیا میں علاقائی رہنما سمجھتا تھا۔
2025 کے بعد کا منظرنامہ واضح ہے پاکستان، چین، آذربائیجان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کا باہمی تعاون نئی صف بندی کی بنیاد رکھ رہا ہے۔ بھارت کے پاس اب دو ہی راستے ہیں: یا تو پُرامن اور تعاون پر مبنی پالیسی اپنائے، یا اپنی جارحانہ روش پر قائم رہ کر مزید تنہائی کا شکار ہو۔

اعلان دستبرداری
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔

Author

  • ڈاکٹر محمد سلیم

    محمد سلیم برطانیہ میں مقیم مصنف اور محقق ہیں جن کی اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ایک مضبوط علمی بنیاد ہے۔ اس کا کام طاقت اور حکمت عملی کی پیچیدگیوں کو تلاش کرتا ہے۔ وہ جغرافیائی سیاست، علاقائی معاملات، اور آج کی دنیا کو تشکیل دینے والے نظریات کے لیے ایک باریک عینک لاتا ہے۔

    View all posts
اوپر تک سکرول کریں۔