ستمبر اور اکتوبر کے دوران جنیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل (یو این ایچ آر سی) کے 60ویں اجلاس نے بھارت کے لیے ایک سخت امتحان کی حیثیت اختیار کر لی۔ جہاں دنیا بھر سے شریک بین الاقوامی غیر حکومتی تنظیموں (این جی اوز) نے بھارت کے چمکدار سیکولر اور جمہوری نقاب کو ہٹا کر اس کی اصل تصویر دنیا کے سامنے رکھی۔ تامل ناڈو کی سیاسی ریلی میں ہونے والا المناک حادثہ، مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و ستم اور شہری آزادیوں پر بڑھتی پابندیاں سب نے بھارت کی نام نہاد جمہوریت کے کھوکھلے پن کو عیاں کر دیا۔
یہ اجلاس بھارت کے لیے صرف ایک تنقیدی فورم نہیں، بلکہ اس کے ریاستی طرزِ عمل پر عالمی فردِ جرم ثابت ہوا۔
سوسائٹی فار ڈویلپمنٹ اینڈ کمیونٹی ایمپاورمنٹ (ایس ڈی سی ای) کی پیش کردہ رپورٹ میں 27 ستمبر 2025 کے تامل ناڈو سیاسی جلسے کے اندوہناک سانحے کو اجاگر کیا۔ اس حادثے میں 41 معصوم افراد جان کی بازی ہار گئے اور 100 سے زائد شدید زخمی ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق ریاستی اداروں کی غفلت، ناقض حفاظتی انتظامات اور عوامی سلامتی کے فقدان نے اس سانحے کو جنم دیا۔ بھارت میں سیاسی ریلیاں عوامی طاقت کے مظاہرے کے بجائے انسانی جانوں کے قتل گاہ بن چکی ہیں، جہاں حکومت محض بیانات جاری کر کے ذمہ داری سے ہاتھ جھاڑ لیتی ہے۔ یہ واقعہ بھارت کے اس جمہوری فریم ورک پر بد نما داغ ہے، جو شہریوں کی فلاح کی بجائے سیاسی فائدے کے لیے عوامی زندگیوں کو خطرے میں ڈالتا ہے۔ کسی بھی مہذب ریاست میں عوامی ہجوم کے لیے بنیادی سکیورٹی پروٹوکول، ایمرجنسی راستے اور طبی امداد کی فراہمی لازم ہوتی ہے مگر بھارت میں یہ سب سیاسی نمائش کے شور میں دب کر رہ گیا ہے۔ اجلاس میں مختلف نمائندوں نے نیا سوال اٹھایا کہ جب ایک ریاست اپنے شہریوں کو محفوظ رکھنے میں ناکام ہو تو اسے جمہوری کیسے کہا جا سکتا ہے؟
انٹرنیشنل ایکشن فار پیس اینڈ سسٹینیبل ڈویلپمنٹ نے اپنی رپورٹ میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج کے مظالم، مذہبی آزادیوں پر قدغن اور شہری حقوق کی پامالیوں کو بے نقاب کیا۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی فورسز نے پرامن مذہبی اجتماعات پر طاقت کا استعمال کیا۔ من گھڑت مقدمات قائم کیے اور سیکڑوں کشمیری نوجوانوں کو محض مذہبی عبادت کی ادائیگی کے جرم میں گرفتار کیا۔ یہ وہی بھارت ہے جو دنیا بھر میں "سب کا ساتھ سب کا وکاس” کا نعرہ لگا کر خود کو جمہوری برداشت کی علامت کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن حقیقت میں مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمان اپنی بنیادی شناخت، مذہبی حق اور اظہار رائے کی آزادی سے محروم ہیں۔ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر پیش کیے گئے شواہد نے یہ ثابت کیا کہ بھارت کا طرز حکمرانی دراصل نو آبادیاتی کنٹرول کا تسلسل ہے، جس میں مقامی آبادی کو دبانے کے لیے طاقت، خوف اور معاشی استحصال کے ہتھکنڈے استعمال کیے جاتے ہیں۔
اجلاس میں شریک مختلف بین الاقوامی تنظیموں نے نشاندہی کی کہ بھارت میں مذہبی اقلیتوں، خاص طور پر مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف منظم تشدد اور امتیازی سلوک ریاستی سرپرستی میں جاری ہے۔ چاہے وہ ماپ لنچنگ کے واقعات ہوں، عبادت گاہوں پر حملے یا روزگار اور تعلیم میں عدم مساوات سب کچھ ایک سوچے سمجھے بیانیہ کے تحت کیا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے سوال اٹھایا کہ کیا ایک ایسا ملک جو اپنے شہریوں کے مذہب، عقائد اور ثقافت کے احترام میں ناکام ہو، دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک ہونے کا دعویٰ کر سکتا ہے؟ بھارتی آئین کی دفعہ 25 اور 26 جو مذہبی آزادی کی ضمانت دیتی ہے آج محض کتابی الفاظ بن چکی ہیں۔ حقیقت میں ہندو انتہا پسندی کے زیر سایہ بھارتی ریاست سیکولرزم کے بنیادی اصولوں کو مسمار کر چکی ہے۔
جنیوا کے Palais des Nations میں پیش کی گئی رپورٹس نے بھارت کے گلوبل رائزنگ پاور کے تاثر کو بری طرح مجروح کیا۔ بین الاقوامی مبصرین نے واضح کیا کہ بھارت کا طرز عمل اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کی چارٹر اور جینوا کنونشن کی متعدد شقوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اقوام متحدہ کی کونسل کے رکن ممالک نے بھارت سے سوال کیا کہ وہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لیے آزاد کمیشن کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت کیوں نہیں دیتا۔ ان رپورٹس کے بعد بھارت کو عالمی میڈیا میں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ مغربی تجزیہ نگاروں نے کہا کہ بھارت کی ساکھ محض اس کے معاشی اعداد و شمار پر نہیں بلکہ انسانی وقار کے احترام پر بھی قائم ہوتی ہے، اور اس میدان میں وہ بری طرح ناکام ہو چکا ہے۔
پاکستان نے یو این ایچ آر سی کے اجلاس میں بھارت کے ظالمانہ رویے پر ٹھوس شواہد پر مبنی موقف پیش کیا۔ پاکستان نے عالمی برادری کو یاد دلایا کہ کشمیر کے مسئلے کی جڑ اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی ہے۔ بھارت نہ صرف کشمیریوں کے سیاسی حقوق سلب کر رہا ہے بلکہ ان کی مذہبی اور ثقافتی شناخت کو بھی ختم کرنے کی منظم کوششوں میں مصروف ہے۔ پاکستانی وفد نے زور دیا کہ بھارت میں اقلیتوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کو روکنے کے لیے عالمی برادری کو محض تشویش کے اظہار سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔ کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آزادانہ تفتیش کے لیے اقوام متحدہ کے مشن کو رسائی دی جائے اور بھارت کو انسانی حقوق کے عالمی معیار پر جواب دہ ٹھہرایا جائے۔
60 واں یو این ایچ آر سی اجلاس بھارت کے لیے ایک عالمی امتحان تھا اور وہ اس میں بری طرح ناکام ہوا۔ بھارت کے نمائندے نے حسب روایت اندرونی معاملات کا بہانہ تراشا، مگر رپورٹس، ویڈیوز، عینی شہادتیں اور متاثرین کے بیانات نے اس بیانیہ کو جھوٹا ثابت کر دیا۔ دنیا اب یہ سمجھنے لگی ہے کہ بھارت کی جمہوریت صرف انتخابی مشینری کا نام ہے۔ حقیقی معنوں میں وہاں ریاستی جبر، مذہبی امتیاز اور اظہار رائے کی گلا گھونٹتی پالیسیاں راج کر رہی ہیں۔ اجلاس نے ایک نئی حقیقت کو جنم دیا بھارت کا سیکولرزم دراصل ایک سیاسی نعرہ ہے، جس کے پیچھے ظلم، جبر اور منافقت کی دیوار کھڑی ہے۔ اب عالمی برادری پر لازم ہے کہ وہ بھارت کے ساتھ تعلقات کی بنیاد محض معاشی یا اسٹریٹجک مفادات پر نہیں بلکہ انسانی وقار اور انصاف کے اصولوں پر رکھے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی کسی بھی ملک کے اندرونی معاملات کا بہانہ نہیں بن سکتی۔ بھارت کو اب اپنی ریاستی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنا ہوگی، ورنہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا یہ دعویٰ محض ایک تلخ طنز بن کر رہ جائے گا۔
اس مضمون میں بیان کردہ خیالات اور آراء خصوصی طور پر مصنف کے ہیں اور پلیٹ فارم کے سرکاری موقف، پالیسیوں یا نقطہ نظر کی عکاسی نہیں کرتے ہیں۔
Author
-
ظہیرال خان ایک مضبوط تعلیمی اور پیشہ ورانہ پس منظر کے ساتھ، وہ بین الاقوامی تعلقات میں مہارت رکھتا ہے اور بڑے پیمانے پر سیکورٹی اور اسٹریٹجک امور کے ماہر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
View all posts

