اس سال جوہانسبرگ میں ہونے والا جی 20 اجلاس ایک نئے عہد کی علامت بن گیا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ یہ اجلاس افریقہ میں منعقد ہو رہا ہے اور عالمی سطح پر اس کے اثرات پہلے سے کہیں زیادہ محسوس کیے جا رہے ہیں۔
یہ محض مصافحوں اور تصویروں کا اجتماع نہیں بلکہ ایک ایسا موقع ہے جو دنیا میں طاقت، وسائل اور ذمہ داریوں کی تقسیم کو نئی سمت دے سکتا ہے۔
گلوبل ایجنڈا کی نئی جہت
جی 20 کا آغاز عالمی مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لیے ہوا تھا، مگر اب اس کا دائرہ بہت وسیع ہو چکا ہے۔
اب یہ فورم ماحولیاتی تبدیلی، قرضوں کے بوجھ، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی اور عالمی طاقت کے توازن جیسے موضوعات پر بات کر رہا ہے۔
دنیا اس وقت ایک فیصلہ کن موڑ پر کھڑی ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی برقرار ہے،
یورپ اور مشرق وسطیٰ میں جنگوں نے ماحول کو غیر مستحکم کر دیا ہے،
اور امیر و غریب ممالک کے درمیان فرق بڑھتا جا رہا ہے۔
ایسے حالات میں جنوبی افریقہ میں اجلاس کا انعقاد اس بات کا اظہار ہے
کہ عالمی معیشت کا مستقبل صرف واشنگٹن یا بیجنگ میں طے نہیں ہوتا۔
افریقہ اور گلوبل ساؤتھ کی آواز
یہ اجلاس افریقہ کے لیے تاریخی موقع ہے۔
اس خطے کو ہمیشہ "امکانات کا براعظم” کہا گیا لیکن عالمی پالیسی سازی میں شمولیت کم رہی۔
اب صورتحال بدل رہی ہے۔
جنوبی افریقہ، بھارت، برازیل اور انڈونیشیا جیسے ممالک اب خود کو خاموش ناظر نہیں بلکہ فعال شراکت دار کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
یہ ممالک منصفانہ تجارتی نظام، وعدہ شدہ ماحولیاتی مالی امداد
اور عالمی مالیاتی اداروں میں برابر کی نمائندگی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
قرض اور ماحولیاتی انصاف
اجلاس میں قرضوں اور ماحولیاتی انصاف کے مسائل مرکزی اہمیت رکھتے ہیں۔
ترقی پذیر ممالک کو یہ شکوہ ہے کہ ان سے کہا جاتا ہے وہ "سبز ترقی” اپنائیں
جبکہ وہ قرضوں اور سود کے بوجھ تلے دبے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ جن ممالک نے سب سے زیادہ آلودگی پیدا کی وہی اب
سب سے بہتر طور پر اس کے اثرات سے بچنے کے قابل ہیں،
جبکہ غریب ممالک سیلاب، خشک سالی اور بڑھتی مہنگائی کا سامنا کر رہے ہیں
اور مدد کے وعدے پورے نہیں ہو رہے۔
جنوبی ایشیا کے لیے اثرات
یہ اجلاس جنوبی ایشیا کے لیے بھی خاص اہمیت رکھتا ہے۔
جو فیصلے جوہانسبرگ میں ہوں گے وہ تجارت، ڈیجیٹل مالیات
اور ماحولیاتی پالیسیوں پر آنے والے کئی برسوں تک اثر انداز ہوں گے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ترقی پذیر دنیا کو ایک منصفانہ سودا ملے،
جہاں اسے کمزور یا تابع معیشت کے طور پر نہ دیکھا جائے۔
ایک متحد اور مضبوط گلوبل ساؤتھ ہی چھوٹی معیشتوں کو
وہ مذاکراتی طاقت دے سکتا ہے جس کی انہیں طویل عرصے سے کمی تھی۔
نتیجہ
سوال یہ ہے کہ کیا یہ اجلاس حقیقی اقدامات لائے گا یا صرف بیانات تک محدود رہے گا۔
تاہم، افریقہ میں دنیا کے طاقتور ترین رہنماؤں کا اجتماع
اس بات کا پیغام ہے کہ عالمی قیادت کا مرکز تبدیل ہو رہا ہے۔
دنیا کا مستقبل اب صرف چند ممالک کے ہاتھ میں نہیں رہا
بلکہ گلوبل ساؤتھ بھی اب عالمی فیصلوں کی میز پر اپنی نشست حاصل کر رہا ہے۔